fasting-guarantee-health 70
روزہ صحت کا ضامن ہے
admin مئ 2, 2020 0 تبصرے
🌹روزہ صحت کا ضامن ہے🌹
ازقلم: مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
محسن انسانیت تاجدار رسالت علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان عالی شان ہے ؛’’صُوموا تَصِحُّوا‘‘۔(ترغیب وترہیب منذری۲/۸۳)
ترجمہ: روزہ رکھو صحت یاب رہوگے۔
اس سے صاف واضح ہے کہ روزہ صحت کاباعث ہے۔اطبا اور حکما بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ روزہ صحت جسمانی کا ضامن ہے۔روزے کاحکم دے کر رب کائنات عزوجل نے اپنے بندوں پر بڑا کرم فرمایا ہے۔سال بھر بندے خوب ڈٹ کر کھاتے پیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کو دعوت دے لیتے ہیں۔سال میں ایک ماہ کا روزہ ان بیماریوں کا بہترین علاج ہو جاتا ہے۔ معدے کی خوب اچھی طرح صفائی ہو جاتی ہے۔بہت سے مضر اور زہریلے مادے بدن سے خارج ہو جاتے ہیں۔
آج کل ڈپریشن اور ٹینشن کا مرض بھی عام ہے۔ روزے میں ان امراض کا بھی علاج ہے۔روزہ آدمی کو پرسکون بناتاہے۔صبح سویرے اٹھنے کا عادی بناتا ہے۔غروب آفتاب کے وقت روزے داردنیا و مافیہا کو بھول کو اپنے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہو کر افطار کی تیاری میں لگ جاتا ہے۔اور صحیح وقت ِافطار پر اس کی توجہ پورے طورپرمرکوز ہوجاتی ہے اور اس وقت جو خوشی حاصل ہوتی ہے، وہ دل کی بیماریوں کا علاج ہے۔حدیث میں بھی آیا ہے کہ روزے داربندے کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک افطار کے وقت ،دوسری لقاے رحمٰن کے وقت اور خوش رہنے والا آدمی کبھی دل کی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوتا۔
ہمدرد دواخانے کے بانی حکیم عبدالحمید دہلوی کے برادرِ خرد جناب حکیم محمد سعید صاحب جو پاکستان کے ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔وہ روزے کے طبی فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں ؛
’’وہی قادر مطلق جس کے حکم کی آپ تعمیل کرتے ہیںاور روزہ رکھتے ہیں، آپ کو کھانے پینے کی پوری آزادی دیتا ہے مگر ایک حد کے ساتھ کہ اسراف نہ کرو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اتنا نہ کھائیں کہ وہ ایک طرف اسراف کی تعریف میں آجائے اور دوسری طرف ہمارے جسم اور ہماری روح کے لیے سبب علالت بن جائے۔ہم جب بھی ضرورت سے زیادہ کھائیں گے ہمارا جسم اور اس کا نظام اسے قبول نہیں کرے گا اور وہ ضائع ہوگا۔
رمضان میںقدرت کی نعمتوں سے بے حساب متمتع(یعنی نفع اندوز)ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو سکتا ہے ہم صرف اپنے اقتصادی نظام کو متاثر کر لیں۔بلکہ اپنے لیے اکل وشرب کا زائداز ضرورت و حیثیت سامان مہیا کر کے اپنے لیے نئے مسائل پیدا کر لیں۔وہ لوگ جو بے حساب نعمتوں سے بے حساب متمتع ہونے کے اہل ہیں ان کو اپنے پڑوس اپنے معاشرے کو ضرورد یکھنا چاہیے کہ کوئی فاقہ تو نہیں کر رہا ہے۔
میری راے میں رمضان شریف میں افطار و سحر کے جو اہتمام و انتظامات لوگ کرتے ہیں وہ اس ماہ مبارک کی روح اور اسپرٹ کے خلاف ہے۔کھانے پینے میں تنوعات کثیرہ ( قسم قسم کی چیزیں ) نقصان دہ ہیں۔
افطار میں ہم عموماً جتنا کھالیتے ہیں اور رات کے کھانے سے جو شکم پری کر لیتے ہیں اور پھر صبح سحری میں جو لوازمات ہم کرتے ہیں وہ کھانے پرکھانے کی تعریف میں آتے ہیں اورقطعی طور پرہماری جسمانی ضرورت وحاجت سے زیادہ ہیں۔ہمیں اس کاحساب کرناچاہیے۔‘‘(ماہنامہ ضیاے حرم لاہور،ص۴۱،۴۲ مئی۱۹۸۶ء)
کتنی سچی اور سیدھی باتیں حکیم صاحب نے فرمائی ہیں، جو دلوں میں بھی اترتی جاتی ہیں اور عمل کی بھی دعوت دیتی ہیں۔واقعی قسم قسم کے کھانوں اور طرح طرح کی افطاریوں نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا ہے یا ہم خود ان کے دلدادہ ہوگئے ہیں۔ہم نے سوچ لیا ہے کہ دن بھر تو بھوکے رہتے ہی ہیں ،اب رات میں جتنا ہوسکے کھا لیں،جو جو ہو سکے استعمال کر لیں ہمیں صرف کھانے کی فکر ہوتی ہے،پیٹ خراب رہے یا ٹھیک ،اس کی طرف ذرا توجہ نہیںکرتے۔افسوس ہے ہم انسان اور اشرف المخلوقات ہوکر بھی جانوروں سے سبق نہیں لیتے کیوں کہ چوپاے اور دوسرے جانوروں کا حال یہ ہے کہ جب ان کا پیٹ بھر جاتا ہے توکھانے سے منہ موڑ لیتے ہیں اور ہم ہیں کہ کھانے پر کھانے میں کوئی تکلف نہیں کرتے۔یقیناً جولوگ ماہ رمضان میں بھی بیمار اورپیٹ کے طرح طرح کے عوارض کے شکار ہو جاتے ہیں اس میں ضرور ہماری بے اعتدالیوں کو دخل ہے۔حکیم محمد سعید صاحب رمضان شریف میں اپنی غذا اور احتیاط کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اور ہمیں دعوت عمل دیتے ہیں۔
’’میں ذاتی طور پررمضان المبارک میں گزشتہ ۳۶ سال سے افطار کے وقت مروجہ افطاری یعنی دہی بڑے ،دال سموسے،پھلکیاں ،چٹنیاں ،قلمی بڑے ،آلو کچالو وغیرہ کچھ نہیں کھاتا ہوں۔ میرا معمول یہ ہے کہ میں کھجور سے روزہ افطار کرتاہوںاور اگر ممکن ہوتاہے تو لیموں یا کسی پھل کا ذرا رس پی لیتاہوںیا کوئی اچھا شربت پی لیتا ہوں۔نماز مغرب سے فارغ ہوکرناشتہ کر لیتا ہوں یعنی ایک گلاس دودھ،ذرا سی ڈبل روٹی بغیر مکھن کے ،گاہے انڈااور بس۔
سحری میں معمولی سادا کھاناکھاتا ہوں۔ گھی کی روٹی اور چاول رمضان المبارک میں، میں ترک کر دیتا ہوں۔ میں اس معمول پر۳۵،۳۶سال سے کاربند ہوں اور مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
شاید میںغلطی نہیں کروں گا اگرسب کو ایسا ہی کرنے کا مشورہ دوں۔یقین کرنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے صحت کو کو ئی نقصان نہیں پہنچے گا اس کے بر عکس اس میں جسم اور روح دونوں کا فائدہ ہے۔پھر دیکھیے کہ تراویح اور تہجد میںکیامزہ آتا ہے۔یہ نماز ہوئی کہ رکوع کرتے ہیں توحلق میں پانی اچھل کر آرہاہے۔اور سجود میں غذا جیسے باہر نکلنی چاہتی ہو۔
آج جدید سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ روزہ کولیسٹرول کوضائع کرتا ہے۔یہ وہی خون کا کولیسٹرول ہے جو دل کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج کی دنیا میں اس سائنسی انکشاف کے لحاظ سے روزہ ایک برکت ہے۔ جو بات آج سائنس کو معلوم ہوتی ہے اس کا ادراک ذات ختم الرسل فداہ ابی وامی وروحی کو تھااور ضرور تھا اس لیے حضور نے روزے کو جسم اور روح کے لیے باعث خیر وبرکت قرار دیا ہے اورمسلمانوں کو اعتدال اورمیانہ روی کی تلقین فرمائی ہے۔‘‘(ایضاً)
بعض ڈاکٹر لوگ شوگر کے مریضوں کو روزہ ترک کردینے کا مشورہ دیتے ہیںجوصحیح نہیں۔ ہالینڈ کے ایک ڈاکٹر ایلف گال کا کہنا ہے’’میںنے شوگر،دل اور معدے کے مریضوں کو مسلسل تیس دن روزے رکھوائے تو شوگر کنٹرول ہوگئی۔دل کی گھبراہٹ میں افاقہ ہو گیا اور معدے کے مریضوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔(فیضان رمضان،ص ۱۰۷)
شوگر والوں کوکچھ زیادہ ہی اعتدا ل سے کھانے پینے پر عمل کرنا چاہیے۔چھنی تلی اور ثقیل غذاوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے پھر بھی تھوڑی تکلیف ہو تو اس کو برداشت کرنیکی کوشش کرنی چاہیے۔آخر روزہ بھوکوں پیاسوں کی تکالیف کا احساس دلانے کے لیے ہی تو فرض کیا گیا ہے۔تاکہ غربا و مساکین اور مشکلات میںگھرے اللہ کے ان بندوں کی بھوک پیاس اور مشکل یاد آجائے جو مجبوراً بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔
یہی بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کرنا باعثِ صحت ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔گویاروزہ روحانی وجسمانی دونوں طرح کے فوائد وبرکات کا جامع ہے۔اور کھانے مین اعتدال کا درس تو قرآن نے دیا ہے۔ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
’’اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو،بے شک حد سے بڑھے اسے پسند نہیں۔(سورہ اعراف :۷/۳۱)
مفسر قرآن حضرت صدرالافاضل مرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ؛
’’اورا سراف یہ ہے کہ سیر (آسودہ) ہو چکنے کے بعد بھی کھاتے رہو۔‘‘(خزائن العرفان)
اس آیت پر ہمیں رمضان اور غیررمضان ہمیشہ عمل کرنا چاہیے اگر ایسا کریں توہم بیماریوں سے کوسوں دور ہو جائیں گے لیکن افسوس کہ ہم رمضان المبارک میں دن بھر تو خوب صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن افطار کے بعد ہم اعتدال و میانہ روی کی ساری حدوں کو پار کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں نقصان اٹھا نا پڑجا تا ہے اور روزوں کی برکت اور صحت کے بجاے بیماری مول لیتے ہیں۔مولیٰ تعالیٰ ہمیں کھانے پینے میں اعتدال و میانہ روی کی روش پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
چریاکوٹ ضلع مئو،یوپی
9838189592
روزہ صحت کا ضامن ہے
admin مئ 2, 2020 0 تبصرے
🌹روزہ صحت کا ضامن ہے🌹
ازقلم: مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
محسن انسانیت تاجدار رسالت علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان عالی شان ہے ؛’’صُوموا تَصِحُّوا‘‘۔(ترغیب وترہیب منذری۲/۸۳)
ترجمہ: روزہ رکھو صحت یاب رہوگے۔
اس سے صاف واضح ہے کہ روزہ صحت کاباعث ہے۔اطبا اور حکما بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ روزہ صحت جسمانی کا ضامن ہے۔روزے کاحکم دے کر رب کائنات عزوجل نے اپنے بندوں پر بڑا کرم فرمایا ہے۔سال بھر بندے خوب ڈٹ کر کھاتے پیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی بیماریوں کو دعوت دے لیتے ہیں۔سال میں ایک ماہ کا روزہ ان بیماریوں کا بہترین علاج ہو جاتا ہے۔ معدے کی خوب اچھی طرح صفائی ہو جاتی ہے۔بہت سے مضر اور زہریلے مادے بدن سے خارج ہو جاتے ہیں۔
آج کل ڈپریشن اور ٹینشن کا مرض بھی عام ہے۔ روزے میں ان امراض کا بھی علاج ہے۔روزہ آدمی کو پرسکون بناتاہے۔صبح سویرے اٹھنے کا عادی بناتا ہے۔غروب آفتاب کے وقت روزے داردنیا و مافیہا کو بھول کو اپنے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہو کر افطار کی تیاری میں لگ جاتا ہے۔اور صحیح وقت ِافطار پر اس کی توجہ پورے طورپرمرکوز ہوجاتی ہے اور اس وقت جو خوشی حاصل ہوتی ہے، وہ دل کی بیماریوں کا علاج ہے۔حدیث میں بھی آیا ہے کہ روزے داربندے کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں ایک افطار کے وقت ،دوسری لقاے رحمٰن کے وقت اور خوش رہنے والا آدمی کبھی دل کی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوتا۔
ہمدرد دواخانے کے بانی حکیم عبدالحمید دہلوی کے برادرِ خرد جناب حکیم محمد سعید صاحب جو پاکستان کے ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔وہ روزے کے طبی فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں ؛
’’وہی قادر مطلق جس کے حکم کی آپ تعمیل کرتے ہیںاور روزہ رکھتے ہیں، آپ کو کھانے پینے کی پوری آزادی دیتا ہے مگر ایک حد کے ساتھ کہ اسراف نہ کرو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اتنا نہ کھائیں کہ وہ ایک طرف اسراف کی تعریف میں آجائے اور دوسری طرف ہمارے جسم اور ہماری روح کے لیے سبب علالت بن جائے۔ہم جب بھی ضرورت سے زیادہ کھائیں گے ہمارا جسم اور اس کا نظام اسے قبول نہیں کرے گا اور وہ ضائع ہوگا۔
رمضان میںقدرت کی نعمتوں سے بے حساب متمتع(یعنی نفع اندوز)ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو سکتا ہے ہم صرف اپنے اقتصادی نظام کو متاثر کر لیں۔بلکہ اپنے لیے اکل وشرب کا زائداز ضرورت و حیثیت سامان مہیا کر کے اپنے لیے نئے مسائل پیدا کر لیں۔وہ لوگ جو بے حساب نعمتوں سے بے حساب متمتع ہونے کے اہل ہیں ان کو اپنے پڑوس اپنے معاشرے کو ضرورد یکھنا چاہیے کہ کوئی فاقہ تو نہیں کر رہا ہے۔
میری راے میں رمضان شریف میں افطار و سحر کے جو اہتمام و انتظامات لوگ کرتے ہیں وہ اس ماہ مبارک کی روح اور اسپرٹ کے خلاف ہے۔کھانے پینے میں تنوعات کثیرہ ( قسم قسم کی چیزیں ) نقصان دہ ہیں۔
افطار میں ہم عموماً جتنا کھالیتے ہیں اور رات کے کھانے سے جو شکم پری کر لیتے ہیں اور پھر صبح سحری میں جو لوازمات ہم کرتے ہیں وہ کھانے پرکھانے کی تعریف میں آتے ہیں اورقطعی طور پرہماری جسمانی ضرورت وحاجت سے زیادہ ہیں۔ہمیں اس کاحساب کرناچاہیے۔‘‘(ماہنامہ ضیاے حرم لاہور،ص۴۱،۴۲ مئی۱۹۸۶ء)
کتنی سچی اور سیدھی باتیں حکیم صاحب نے فرمائی ہیں، جو دلوں میں بھی اترتی جاتی ہیں اور عمل کی بھی دعوت دیتی ہیں۔واقعی قسم قسم کے کھانوں اور طرح طرح کی افطاریوں نے ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا ہے یا ہم خود ان کے دلدادہ ہوگئے ہیں۔ہم نے سوچ لیا ہے کہ دن بھر تو بھوکے رہتے ہی ہیں ،اب رات میں جتنا ہوسکے کھا لیں،جو جو ہو سکے استعمال کر لیں ہمیں صرف کھانے کی فکر ہوتی ہے،پیٹ خراب رہے یا ٹھیک ،اس کی طرف ذرا توجہ نہیںکرتے۔افسوس ہے ہم انسان اور اشرف المخلوقات ہوکر بھی جانوروں سے سبق نہیں لیتے کیوں کہ چوپاے اور دوسرے جانوروں کا حال یہ ہے کہ جب ان کا پیٹ بھر جاتا ہے توکھانے سے منہ موڑ لیتے ہیں اور ہم ہیں کہ کھانے پر کھانے میں کوئی تکلف نہیں کرتے۔یقیناً جولوگ ماہ رمضان میں بھی بیمار اورپیٹ کے طرح طرح کے عوارض کے شکار ہو جاتے ہیں اس میں ضرور ہماری بے اعتدالیوں کو دخل ہے۔حکیم محمد سعید صاحب رمضان شریف میں اپنی غذا اور احتیاط کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں اور ہمیں دعوت عمل دیتے ہیں۔
’’میں ذاتی طور پررمضان المبارک میں گزشتہ ۳۶ سال سے افطار کے وقت مروجہ افطاری یعنی دہی بڑے ،دال سموسے،پھلکیاں ،چٹنیاں ،قلمی بڑے ،آلو کچالو وغیرہ کچھ نہیں کھاتا ہوں۔ میرا معمول یہ ہے کہ میں کھجور سے روزہ افطار کرتاہوںاور اگر ممکن ہوتاہے تو لیموں یا کسی پھل کا ذرا رس پی لیتاہوںیا کوئی اچھا شربت پی لیتا ہوں۔نماز مغرب سے فارغ ہوکرناشتہ کر لیتا ہوں یعنی ایک گلاس دودھ،ذرا سی ڈبل روٹی بغیر مکھن کے ،گاہے انڈااور بس۔
سحری میں معمولی سادا کھاناکھاتا ہوں۔ گھی کی روٹی اور چاول رمضان المبارک میں، میں ترک کر دیتا ہوں۔ میں اس معمول پر۳۵،۳۶سال سے کاربند ہوں اور مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
شاید میںغلطی نہیں کروں گا اگرسب کو ایسا ہی کرنے کا مشورہ دوں۔یقین کرنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے صحت کو کو ئی نقصان نہیں پہنچے گا اس کے بر عکس اس میں جسم اور روح دونوں کا فائدہ ہے۔پھر دیکھیے کہ تراویح اور تہجد میںکیامزہ آتا ہے۔یہ نماز ہوئی کہ رکوع کرتے ہیں توحلق میں پانی اچھل کر آرہاہے۔اور سجود میں غذا جیسے باہر نکلنی چاہتی ہو۔
آج جدید سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ روزہ کولیسٹرول کوضائع کرتا ہے۔یہ وہی خون کا کولیسٹرول ہے جو دل کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ آج کی دنیا میں اس سائنسی انکشاف کے لحاظ سے روزہ ایک برکت ہے۔ جو بات آج سائنس کو معلوم ہوتی ہے اس کا ادراک ذات ختم الرسل فداہ ابی وامی وروحی کو تھااور ضرور تھا اس لیے حضور نے روزے کو جسم اور روح کے لیے باعث خیر وبرکت قرار دیا ہے اورمسلمانوں کو اعتدال اورمیانہ روی کی تلقین فرمائی ہے۔‘‘(ایضاً)
بعض ڈاکٹر لوگ شوگر کے مریضوں کو روزہ ترک کردینے کا مشورہ دیتے ہیںجوصحیح نہیں۔ ہالینڈ کے ایک ڈاکٹر ایلف گال کا کہنا ہے’’میںنے شوگر،دل اور معدے کے مریضوں کو مسلسل تیس دن روزے رکھوائے تو شوگر کنٹرول ہوگئی۔دل کی گھبراہٹ میں افاقہ ہو گیا اور معدے کے مریضوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔(فیضان رمضان،ص ۱۰۷)
شوگر والوں کوکچھ زیادہ ہی اعتدا ل سے کھانے پینے پر عمل کرنا چاہیے۔چھنی تلی اور ثقیل غذاوں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے پھر بھی تھوڑی تکلیف ہو تو اس کو برداشت کرنیکی کوشش کرنی چاہیے۔آخر روزہ بھوکوں پیاسوں کی تکالیف کا احساس دلانے کے لیے ہی تو فرض کیا گیا ہے۔تاکہ غربا و مساکین اور مشکلات میںگھرے اللہ کے ان بندوں کی بھوک پیاس اور مشکل یاد آجائے جو مجبوراً بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔
یہی بھوک پیاس کی تکلیف برداشت کرنا باعثِ صحت ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔گویاروزہ روحانی وجسمانی دونوں طرح کے فوائد وبرکات کا جامع ہے۔اور کھانے مین اعتدال کا درس تو قرآن نے دیا ہے۔ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
’’اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو،بے شک حد سے بڑھے اسے پسند نہیں۔(سورہ اعراف :۷/۳۱)
مفسر قرآن حضرت صدرالافاضل مرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ؛
’’اورا سراف یہ ہے کہ سیر (آسودہ) ہو چکنے کے بعد بھی کھاتے رہو۔‘‘(خزائن العرفان)
اس آیت پر ہمیں رمضان اور غیررمضان ہمیشہ عمل کرنا چاہیے اگر ایسا کریں توہم بیماریوں سے کوسوں دور ہو جائیں گے لیکن افسوس کہ ہم رمضان المبارک میں دن بھر تو خوب صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن افطار کے بعد ہم اعتدال و میانہ روی کی ساری حدوں کو پار کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں نقصان اٹھا نا پڑجا تا ہے اور روزوں کی برکت اور صحت کے بجاے بیماری مول لیتے ہیں۔مولیٰ تعالیٰ ہمیں کھانے پینے میں اعتدال و میانہ روی کی روش پرچلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری
چریاکوٹ ضلع مئو،یوپی
9838189592
No comments:
Post a Comment