Friday, May 15, 2020

لاک ڈاؤن میں صاحب نصاب نفقہ کی دشواری کے سبب بقدرحاجت زکوٰة لے سکتاہے

*لاک ڈاؤن میں صاحب نصاب نفقہ کی دشواری کے سبب بقدرحاجت زکوٰة لے سکتاہے*

الحلقة العلمية ٹیلیگرام :https://t.me/alhalqatulilmia

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
*آج کل لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ بہت پریشان ہیں، کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جنہیں کھانے کی اشیاء بھی باقاعدگی سے میسر نہیں ہیں، لیکن افرادِ خانہ میں جو مستورات ہیں ان کے پاس زیورات ہیں، اور مرد حضرات بھی ہیں؛ ان کی کوئی دکان ہے جس میں نصاب کے بقدر سامانِ تجارت موجود ہے لیکن فی الوقت وہ بند ہے، اور آمدنی بھی نہیں ہے، پاس  رقم بھی نہیں ہے جس سے گزر بسر ہو سکے، اور کوئی قرض دینے والا بھی نہیں ہے، ایسے وقت میں جو لوگ زکوٰۃ کی رقم سے ضرورت مندوں کا تعاون کر رہے ہیں یا اناج غلہ تقسیم کر رہے ہیں کیا ایسے لوگ زکوٰۃ کی رقم سے کی جانے والی مدد سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ یا کوئی اور شکل ہے جس کو اختیار کرنا ہوگا*
امید کہ مدلل جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں گے، فجزاكم اللہ تعالی؛
ا_________(💚)___________
*الجواب بعون الملک الوھاب؛* زکوۃ کے مصارف متعین ہیں ان کے علاوہ کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادانہیں ہوگی۔
لھذا صورت مسئولہ میں مستورات سے مراد بیوی یا غیر شادی شدہ بالغ بیٹی ہے اگر ان کے زیورات نصاب سے کم ہیں  اور یہ غنیہ بھی نہیں ہیں تو یہ مستحق زکوۃ ہیں انہیں لاک ڈاؤن میں زکوۃ کے ذریعے امداد کر سکتے ہیں، دینے والا مستحق ثواب ہوگا ۔
 اور اگر مستورات یعنی بیوی اور بالغ بیٹی کے زیورات کامل نصاب ہیں یا مرد حضرات مال تجارت کے سبب صاحب نصاب ہیں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، خواہ  لاک ڈاؤن ہی سہی ، ان لوگوں کو زکوۃ دیناجائز نہیں ہے ۔
کورونا وائرس کی  مہاماری کے موقع سے مخیرحضرات کو چاہئے کہ زکوۃ کے علاوہ دیگر اموال سے ان کی مددکریں۔
ہاں اگر کسی بھی طرح سے  نفلی صدقات و عطیات سے مدد کی امید نہ ہو، چارہ کار صرف مال زکوۃ ہو تو بقدر حاجت نفقہ کے واسطے یعنی کھانے کے واسطے زکوۃ لے سکتا ہے 
*(📘فتاوی رضویہ ملخصا  10/113)*
 *(📕درمختار میں ہے : ولا الی غنی یملک قدر نصاب فارغ عن حاجۃ الاصلیۃ(۳/۲۹۶)*
*(📙اسی میں ہے : بخلاف ولدہ الکبیر و ابیہ و امراتہ الفقراءوطفل الغنیۃ فیجوز(۳؍۲۹۸)*
*(📝اعلی حضرت فرماتے ہیں:)*    
صدقہ دو قسم کا ہوتا ہے ،صدقہ واجبہ اور نافلہ ۔ صدقہ واجبہ مالدار کو لینا حرام اور اس کو دینا بھی حرام ہے اور اس کو دینے سے زکوٰۃ بھی ادا نہ ہوگی ۔ رہاصدقہ نافلہ تو اس کے لئے مالدار کو مانگ کر لینا حرام اور بغیر مانگے ملے تو مناسب نہیں جبکہ دینے والا مالدار جان کر دے اور اگر محتاج سمجھ کر دے تو لینا حرام اور اگر لینے کے لئے اپنے آپ کو محتاج ظاہر کیا تو دوسراحرام ۔ ہاں وہ صدقاتِ نافلہ کہ عام مخلوق کے لئے ہوتے ہیں اور ان کو لینے میں کوئی ذِلت نہ ہو تو وہ غنی کو لینا بھی جائز ہے جیسے ،سبیل کا پانی ، نیاز کی شیرینی وغیرہ ۔
*(📕فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ،ج۱۰، ص ۱۴۱)*
*واللہ اعلم بالصواب؛* 
 ا______(🖌)_________
*کتبـــہ؛*
*حضرت علامہ مفتی محمد ھاشم رضا مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی صدر شعبئہ افتاء دارالعلوم جامعہ رضویہ شاہ علیم دیوان شیموگہ کرناٹکا؛*
*مورخہ؛3/5/2020)*
*🖊الحلقةالعلمیہ گروپ🖊*
*رابطہ؛☎7760517611)*
ا________(🖊)__________
*🖌المشتـــہر فضل کبیر 🖌*
*منجانب؛منتظمین الحلقةالعلمیہ گروپ؛محمد عقیل احمد قادری حنفی سورت گجرات انڈیا؛*
ا________(🖊)___________
693

No comments:

Post a Comment