🌹کیا معتکف اذان دے سکتا ہے یا نہیں🌹
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
🖊علماۓ کرام کی بارگاہ میں سوال ہیکہ کیا معتکف اذان دے سکتا ہے یا نہیں
🤲 ساٸل محمد انصارالحق رضوی ٹھاکر گنج بہار الھند
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
💫💫💫⭐💫💫💫
📚 الجواب بعون الملک الوھاب
✍ صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:’’فِنائے مسجد جو جگہ مسجدسے باہَراس سے مُلحَق ضروریاتِ مسجدکیلئے ہے، مَثَلًاجوتا اتارنے کی جگہ اور غُسْل خانہ وغیرہ اِن میں جانے سے اِعتِکاف نہیں ٹوٹے گا۔“مزیدآگے فرماتے ہیں :
”فنائے مسجداس مُعامَلہ میں حکمِ مسجد میں ہے‘‘
📚 فتاوی امجدیہ،کتاب الصوم،
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:”جب وہ مدارس متعلّقِ مسجد، حدودِ مسجد کے اندرہیں اُن میں اور مسجد میں راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل سے صحنوں کاامتیاز کردیاہے تو ان میں جانا مسجد سے باہر جاناہی نہیں یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کوجاناجائز کہ وہ گویا مسجد ہی کا ایک قطعہ ہے۔وھذا ما قال الامام الطحاوی انّ حجرۃ امّ المؤمنین من المسجد، فی ردّ المحتار عن البدائع لو صعد ای: المعتکف المنارۃ لم یفسد بلاخلاف لانّھا منہ لانّہ یمنع فیھا من کلّ مایمنع فیہ من البول ونحوہ فاشبہ زاویۃ من زوایا المسجد۔ یعنی یہی بات امام طحاوی نے فرمائی کہ اُمُّ المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا حجرہ مسجد کاحصہ ہے۔ ردالمحتارمیں بدائع سے ہے اگر معتکف منارہ پرچڑھا توبالاتفاق اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا کیونکہ منارہ مسجد کاحصہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر وہ عمل مثلاً بول وغیرہ منع ہے جومسجد میں منع ہے تویہ مسجد کے دیگر گوشوں کی طرح ایک گوشہ ٹھہرا۔‘‘
📚 فتاوی رضویہ،باب الوتر والنوافل،۷/۴۵۳.
علامہ علاؤ الدّین حصکفی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تحریرفرماتے ہیں :”( الخروج الّا لحاجة الانسان)طبيعيّة كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر۔“یعنی معتکف مسجد سے نہ نکلے مگر حاجت ِ طبعیہ کی وجہ سے جیسے پیشاب،پاخانہ اور احتلام ہوتو غسل کیلئے جبکہ اُسے مسجد میں غسل کرنا ممکن نہ ہو۔جیسا کہ نہر میں ہے ۔
📚 در مختار، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ۳/۵۰۱.
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی قُدِّسَ سِرُّہٗ تحریر فرماتے ہیں : معتکف کو مسجد سے نکلنے کے دوعذر ہیں:
ایک حاجتِ طبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہو سکے جیسے پاخانہ، پیشاب، استنجا، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل، مگر غسل و وضو میں یہ شرط ہے کہ مسجد میں نہ ہوسکیں یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہو جس میں وضو و غسل کا پانی لے سکے اس طرح کہ مسجد میں پانی کی کوئی بوند نہ گرے کہ وضو و غسل کا پانی مسجد میں گرانا ناجائز ہے اور لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں وضو اس طرح کر سکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجدمیں نہ گرے تو وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں، نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔یوہیں اگر مسجد میں وضو و غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں۔
دوم حاجتِ شرعی مثلاً عید یا جمعہ کے لیے جانا یا اذان کہنے کے لیے منارہ پر جانا، جبکہ منارہ پر جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو اور اگر منارہ کا راستہ اندر سے ہو تو غَیرِ مؤذن بھی منارہ پر جا سکتا ہے مؤذن کی تخصیص نہیں۔
📚 بہارِ شریعت،حصہ پنجم، اعتکاف کا بیان،۱/۱۰۲۳-۱۰۲۴
🌿🌿🌿🌻🌿🌿🌿
✍ کتبہ۔حضرت مولانا محمد عمران علی نعمانی رضوی صاحب ممبٸ مہاراشتر الھند
📲9773617995📱
()()()()()()()()()()()()()()
فلاح دارین گروپ میں شامل ہونے کیلۓ رابطہ کریں 👇
📲9773617995📱
💐💐💐🌹💐💐💐
No comments:
Post a Comment