Sunday, May 10, 2020

کیاحضرت عکاشہ حضور ﷺ سے بدلہ لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے؟

💥کیاحضرت عکاشہ حضور ﷺ سے بدلہ لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے؟ 💥
✨✨✨✨
حضرت عکاشہ والا واقعہ صحیح ہے؟ 
رھنمائی فرمائیں. 
یہ واقعہ ہے حضور ﷺ سے بدلہ لینے کے بہانے مہر نبوت کو بوسہ دینے کا ہے . 
SAJID ASHRAFI: سائل 
✨✨✨✨
الجواب :حضرت عکاشہ کے حوالے سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ سورہ  إذا جاء نصراللہ  میں ایام وصال کے قریب ہونے کی جانب اشارہ ملا، تو اس کے نزول کے بعد  آقاﷺ نے اعلان کردیا کہ میرے ذمہ کسی کا کچھ رہ گیا ہو تو حاصل کرلے. اس پر عکاشہ نام کے ایک بزرگ صحابی قصاص کے طور پر آپ سے بدلہ لینے کے لیے کھڑے ہو گئے ، اس پر بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی جگہ خود کو پیش کرنے کی درخواست کی، مگر حضرت عکاشہ تیار نہ ہوئے بالآخر آپ کے جسم اقدس کو بوسہ دیا، اور کہا کہ یہی میرا ارادہ تھا. 
اس روایت کو
✨ علامہ ابن جوزی نے کتاب الموضوعات میں 
✨علامہ جلال الدین سیوطی نے الآلی المصنوعہ میں. 
علامہ عبد الحی لکھنوی فرنگی محلی نے الآثار المرفوعہ میں موضوع ومن گھڑت بتایا ہے. لہذا اس کے ذکر سے احتراز لازم ہے. 
✨✨✨✨
 اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کا ہے . جو صحیح سند کے ساتھ ابوداؤد شریف میں ہے کہ انھوں نے بدلہ لینے کے بہانے پہلو مبارک کا بوسہ دیا، وہ حدیث یوں ہے :
عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ - رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ - قَالَ : بَيْنَمَا هُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ - وَكَانَ فِيهِ مِزَاحٌ - بَيْنَا يُضْحِكُهُمْ فَطَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَاصِرَتِهِ بِعُودٍ، فَقَالَ : أَصْبِرْنِي . فَقَالَ : " اصْطَبِرْ ". قَالَ : إِنَّ عَلَيْكَ قَمِيصًا وَلَيْسَ عَلَيَّ قَمِيصٌ. فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَمِيصِهِ، فَاحْتَضَنَهُ وَجَعَلَ يُقَبِّلُ كَشْحَهُ. قَالَ : إِنَّمَا أَرَدْتُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ.
حكم الحديث: صحيح الإسناد
(سنن أبی داؤد ،أَوْلُ كِتَابِ الْأَدَبِ  | بَابٌ : فِي قُبْلَةِ الْجَسَدِ)
 یعنی :  ایک انصاری صحابی حضرت اسید بن حضیر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ  [جن کی طبیعت میں مزاح تھا] باتیں کررہے تھے اور لوگوں  کو ہنسا رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک لکڑی سے ان کی کمر میں کونچا دیا۔ انھوں   نے حضور ﷺ سے عرض کی: 
 مجھے اس کا بدلہ دیجیے۔ 
حضور ﷺ نے فرمایا: بدلہ لے لو۔ 
انھوں نے عرض کیا: حضور ﷺ قمیص پہنے ہوئے ہیں، میرے بدن پر قمیص نہیں ہے۔
 حضور ﷺ نے قمیص ہٹادی، وہ چپٹ گئے اور پہلو کو بوسہ دیا اور یہ کہا کہ میرا مقصد یہی تھا۔ (بدلہ لینا مقصود نہ تھا) انتھی. 
 خلاصہ کلام :
حضرت عکاشہ کا واقعہ موضوع و من گھڑت ہے، حدیث کے طور بیان کرنا جائز نہیں. اس کے بجائے حضرت اسید بن حضیر والا واقعہ مستند، صحیح الإسناد ہے؛ بیان کیا جاسکتا ہے. واللہ تعالٰی اعلم.
فیضان سرورمصباحی
    2/نومبر 2018ء

No comments:

Post a Comment