Friday, July 10, 2020

lدو بھائیوں نے شادی کی شب زفاف میں دونوں نے ایک دوسرے کی بیوی سے انجانے میں جِماع کر لیاتو شرعاً كیا حکم ہے؟ـ

دو بھائیوں نے شادی کی شب زفاف میں دونوں نے ایک دوسرے کی بیوی سے انجانے میں جِماع کر لیاتو شرعاً كیا حکم ہے؟ـ

کیا فرماتے ہیں علماء ملت اسلامیہ اس مسئلہ کے بارے ميں دو بھائی ایک ساتھ شادی کیا جب دونوں بھائی بیوی کو گھر لایا لیکن ہمبستری کے وقت بیوی میں مشابہ ہوگیا مثلا چھوٹے کی بیوی بڑےبھائ کے پاس. اور بڑے بھائی کی بیوی چھوٹے بھائی کے پاس  ہمبستری کیا  اب صورت مسئلہ میں. کیا بیوی ویساہی رہے گی جیسا نکاح پڑھایا گیا تھا.  یا کچ اور صورت ہوگی.        جواب مع حوالہ عنایت فرمائیں کرم ہوگا.

سائل محمد شریف الحق رضوی

بســـم اللہ الــرحمٰــــن الـــــرحیـــم
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مسؤلہ کلام یہ ھیکہ کوفہ کے ایک شخص نے بڑے دھوم دھام سے ایک ساتھ اپنے دو بیٹوں کی شادی کی؛؛  ولیمہ کی دعوت میں تمام اکابر موجود تھے مسعر بن کدام حسن بن صالح  سفیان ثوری؛؛ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہم شریک دعوت تھے لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک صاحب خانہ بد حواس گھر سے نکلا اور کہا غضب ہوگیا زفاف کی رات عورتوں کی غلطی سے بیویاں بدل گئی جس عورت نے جس کہ پاس رات گزاری وہ اس کا شوہر نہیں تھا؛
لہذا سفیان ثوری نے کہا کہ امیر معاویہ کے زمانے میں ایسا واقعہ پیش آیا تھا اس سے نکاح پر کچھ فرق نہیں پڑتاہے البتہ دونوں کا مہر لازم ہوگا؛
 مسعر بن کدام حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف متوجہ ہوئے کہ آپ کی کیا رائے ہے ہمارے امام؛ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا پہلے دونو‍ں لڑکے کو بلایا جائے تب جواب دونگا چنانچہ دونوں شوہر ( یعنی دونوں لڑکے)  کو بلایا گیا اور امام اعظم نے دونوں سے الگ الگ دریافت فرمایا کہ رات تم نے جس عورت کے ساتھ رات گزاری ہے اگر وہی تمہارے نکاح میں رہے تو کیا تمہیں پسند ہے؛  دونوں لڑکے نے امام اعظم کو جواب دیا جی ہاں تب ہمارے امام؛  امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تم دونوں اپنی اپنی بیوں کو جن سے تمہارا نکاح پڑھایا گیا تھا اسے طلاق دے دو اور ہر شخص اس سے نکاح کر لے جو اس کے ساتھ ہم بستر رہ چکی ہے
 
لہذا صورت مسؤلہ کا حل بھی یہی ہے جو ہمارے امام ـ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا فیصلہ ہے ـ

(عقود الجمان  ص 255 )

یاد رہے کہ حضرت سفیان ثوری نے جو جواب دیاتھا وہ بھی مسئلہ کے لحاظ سے صحیح تھا کیونکہ وطی بالشبہ کی وجہ سے نکاح نہیں ٹوٹتا ہے مگر امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے جس مصلحت کو پیش نظر رکھا وہ انہی کے حکیمانہ فراست کا حصہ تھا اس لئے کہ وطی بالشبہ کی وجہ سے عدت تک انتظار کرنا پڑتا جو اس وقت ایک مشکل امر تھا پھر عدت کے زمانے میں ہر ایک کو یہ خیال گزرتا کہ میری بیوی دوسرے کے پاس رات گزار چکی ہے اور اس کے ساتھ رہنے پر غیرت گوارہ نہ کرتی اور نکاح کا اصل مقصد الفت و محبت ہے لہذا اتحاد و اعتماد بڑی مشکل سے قائم ہوپاتا واہ ہمارے امام اعظم نے ایسے پیچیدہ مسئلہ کا حل حکیمانہ فراست سے بڑی آسانی میں فرمادیا کیا عظیم شان ہے ہمارے امام ـ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اللہ اکبر کبیرا ؛؛

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

ازقلــم؛  العبد الاثیم خاکسار ابوالصدف محمد صادق رضاصاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی مقام؛ سنگھیاٹھاٹھول (پورنیہ)  خادم؛ شاہی جامع مسجد پٹنہ  بہار   الھند

الجواب صحيح والمجيب نجيح
محمد عثمان غنى جامعى مصباحى عفى عنہ دربهنگہ
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی

الـمرتـب؛اسـیرتـاج الـشریـعـه
غـلام احمـدرضـاقـادی یـوپــی

فخر ازهر فقہى گروپ

#نکاح

No comments:

Post a Comment