*🌹قربانی کے مسائل اور ان کا حل🌹*
🌺قسط ہفتم (7) - سوال 61 تا 70🌺
*سوال 61:*
کیا 11 اور 12 ذی الحجہ کی راتوں میں قربانی کرسکتے ہیں؟
*جواب :*
11 اور 12 ذی الحجہ کی راتیں ایامِ نحر (یعنی قربانی کے دنوں) میں داخل ہیں لہذا ان دونوں راتوں میں قربانی کرنا جائز ہے مگر اندھیرے کی وجہ سے ذبح میں غلطی کا احتمال ہونے کی وجہ سے مکروہِ تنزیہی اور شرعاً ناپسندیدہ ہے.
*(فتاوی عالمگیری جلد 5 صفحہ 295 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ، بحرالرائق جلد 8 صفحہ 332 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*نوٹ 1:*
رات میں قربانی کرنا اس وقت مکروہِ تنزیہی اور ناپسندیدہ ہے جب روشنی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ذبح میں غلطی کا احتمال اور دشواری ہو اور جہاں روشنی کا انتظام اچھا ہو کہ ذبح میں غلطی کا احتمال اور دشواری نہ ہوگی تو رات کو قربانی کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ بھی نہ ہوگا.
*(ماخوذ از بحر الرائق جلد 8 صفحہ 322 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ، عید الاضحٰی کا تحفہ صفحہ 25 والضحیٰ پبلی کیشنز)*
*نوٹ 2 :*
10 ذی الججہ کے دن کے بعد جو رات آتی ہے، اسے 11 ذی الحجہ کی رات کہا جاتا ہے اور 11 ذی الحجہ والے دن کے بعد جو رات آتی ہے، اسے 12 ذی الحجہ کی رات کہا جاتا ہے.
*سوال 62:*
کس دن قربانی کرنا سب سے افضل ہے ؟
*جواب :*
پہلے دن (یعنی 10 ذی الحجہ کے دن) قربانی کرنا سب سے افضل ہے، پھر دوسرے دن (یعنی 11 ذی الحجہ کے دن) اس سے کم درجہ ہے، اور پھر تیسرے دن (یعنی 12 ذی الحجہ کے دن) سب سے کم درجہ ہے.
*(فتاویٰ عالمگیری جلد 5 صفحہ 295 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*سوال 63:*
اگر شہر میں پہلے دن قربانی کرنی ہو تو کس وقت کی جائے گی ؟
*جواب :*
اگر شہر میں پہلے دن قربانی کرنی ہو تو اس کے لئے شرط یہ ہے کہ نمازِ عید ہو چکنے کے بعد کی جائے لہذا اگر کسی نے شہر میں نماز ِعید سے پہلے قربانی کی تو جانور حلال ہوجائے گا مگر قربانی کا واجب ادا نہ ہوگا.
*(صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 832 قدیمی کتب خانہ کراچی، ردالمحتار علی الدرالمختار جلد 9 صفحہ 527، 528 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*سوال 64:*
اگر شہر میں نمازِ عید ہو چکی ہو مگر ابھی خطبہ نہ ہوا ہو تو کیا قربانی کرسکتے ہیں ؟
*جواب :*
اگر شہر کے اندر نمازِ عید ہو چکی ہو مگر خطبہ نہ ہوا ہو تو قربانی ہوجائے گی مگر ایسا کرنا مکروہِ (تنزیہی) ہے لہٰذا شہر میں بہتر یہ ہے کہ نمازِ عید کا خطبہ ہو چکنے کے بعد قربانی کی جائے.
*(ردالمحتار علی الدرالمختار جلد 9 صفحہ 528 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ، بہار شریعت حصہ 15 جلد 3 صفحہ 337 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
*سوال 65:*
اگر شہر میں متعدد جگہ نمازِ عید ہوتی ہو تو کس وقت قربانی کی جائے گی ؟
*جواب :*
اگر شہر میں متعدد جگہ نمازِ عید ہوتی ہو تو پہلی جگہ نماز عید ہو جانے کے بعد قربانی جائز ہے، سب جگہوں کا انتظار کرنا ضروری نہیں.
*(ردالمحتار علی الدرالمختار جلد 9 صفحہ 527، 528 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*نوٹ:*
اس صورت میں ضروری ہے کہ پہلی جگہ جہاں عید کی نماز ہوئی ہے وہ مسلکِ حق اہلسنت و جماعت والوں کی ہو کیونکہ بدمذہبوں کی نمازِ عید کا کوئی اعتبار نہیں.
*سوال 66:*
اگر گاؤں میں پہلے دن قربانی کرنی ہو تو کس وقت قربانی کی جائے گی ؟
*جواب :*
گاؤں میں جہاں عید کی نماز نہ ہوتی ہو تو وہاں طلوعِ صبحِ صادق ہوتے ہی (یعنی نمازِ فجر کا وقت شروع ہوتے ہی) قربانی کی جا سکتی ہے مگر بہتر ہے کہ طلوعِ آفتاب کے بعد قربانی کی جائے.
*(فتاوی عالمگیری جلد 5 صفحہ 295 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*سوال 67:*
اگر قربانی کرنے والا شہر میں ہو مگر اس کی قربانی کا جانور گاؤں میں ہو تو کس وقت قربانی کی جائے گی ؟
*جواب :*
اگر قربانی کرنے والا شہر میں ہو مگر اس کی قربانی کا جانور گاؤں میں ہو تو نمازِ فجر کا وقت داخل ہوتے ہی اس کی قربانی کی جا سکتی ہے مگر بہتر ہے کہ طلوعِ آفتاب کے بعد قربانی کی جائے.
*(ردالمحتار علی الدرالمختار جلد 9 صفحہ 529 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*سوال 68:*
اگر قربانی کرنے والا گاؤں میں ہو مگر اس کی قربانی کا جانور شہر میں ہو تو کس وقت قربانی کی جائے گی ؟
*جواب :*
اگر قربانی کرنے والا گاؤں میں ہو مگر اس کی قربانی کا جانور شہر میں ہو تو نمازِ عید کے بعد قربانی کی جائے گی.
*(ردالمحتار علی الدرالمختار جلد 9 صفحہ 529 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*سوال 69:*
اگر کسی گاؤں میں نمازِ عید ہوتی ہو تو وہاں قربانی کس وقت کی جائے گی ؟
*جواب :*
گاؤں دو طرح کے ہوتے ہیں :
1 - وہ گاؤں کہ جہاں عید کی نماز روایتِ نادرہ کے مطابق جائز ہوتی ہے تو وہاں احتیاطاً نمازِ عید ہو چکنے کے بعد قربانی کی جائے گی.
*(ماخوذ از صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 832 قدیمی کتب خانہ کراچی، قربانی کے احکام صفحہ 91 والضحیٰ پبلی کیشنز)*
2 - وہ گاؤں کہ جہاں عید کی نماز روایتِ نادرہ کے مطابق بھی جائز نہیں ہوتی تو وہاں پر طلوعِ فجر کے بعد قربانی کی جا سکتی ہے مگر بہتر ہے کہ طلوعِ آفتاب کے بعد قربانی کی جائے۔
*(ماخوذ از فتاوی عالمگیری جلد 5 صفحہ 295 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ، عید الاضحیٰ کا تحفہ صفحہ 65 والضحیٰ پبلی کیشنز)*
*سوال 70:*
کس گاؤں میں عیدین کی نماز جائز ہے اور کس گاؤں میں عیدین کی نماز جائز نہیں ؟
*جواب :*
ہر وہ گاؤں جس کی آبادی میں اتنے مسلمان، مرد، عاقل، بالغ ایسے تندرست کہ جن پر جمعہ فرض ہوچکے آباد ہوں، اگر وہ سب وہاں کی سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں تو ایسے گاؤں کے اندر عیدین کی نماز قائم کرنا جائز ہے.
کیونکہ یہ امام ابو یوسف علیہ رحمہ کی ایک روایتِ نادرہ کے مطابق شہر ہے اگرچہ یہ اصلِ مذہبِ احناف کے خلاف ہے مگر فی زمانہ تعامل اور دفعِ حرج کی بنا پر علماء کرام کی اکثریت اس روایت پر عمل کرنے میں حرج نہیں جانتی اور بلا کراہت ایسی جگہوں پر بسنے والوں کے جمعہ اور عیدین کو درست قرار دیتی ہے.
لہٰذا روایت نادرہ کے مطابق شہر کی یہ تعریف جس گاؤں پر سچی آئے گی، وہاں جمعہ اور عیدین کی نماز درست ہوگی اور جس گاؤں پر یہ تعریف سچی نہیں آئے گی وہاں جمعہ اور عیدین مذہبِ حنفی میں ضرور ناجائز و گناہ ہیں البتہ جہالت کی وجہ سے وہاں کے لوگ پڑھتے ہوں تو منع نہ کیا جائے کہ لوگ جس طرح بھی اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیں، غنیمت ہے البتہ نرمی کے ساتھ ضرور سمجھایا جائے کہ نمازِ ظہر آپ کے ذمہ لازم ہے، اس کو نہ چھوڑیں اور اپنی آبادی میں باجماعت نمازِ ظہر پڑھیں لیکن اس کا لحاظ ضرور رکھا جائے کہ سمجھانے میں کسی قسم کا فتنہ نہ ہو۔
*(فیضانِ فرض علوم جلد 1 صفحہ 503، 504 مکتبہ امام اہلسنت)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
15/07/2020
03068209672
No comments:
Post a Comment