♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️
*اِنسان کو فِرشتہ کہنا کیسا* ؟
📚🖋📚🖋📚🖋📚🖋📚🖋
سُوال : ”فُلاں شخص لباسِ اِنسانی میں فِرشتہ ہے۔“ایسا کہنا کیسا ؟
سائل: *علاالدین* - مالیگاؤں
جواب: ”فُلاں شخص لباسِ اِنسانی میں فِرشتہ ہے۔“یہ ایک مُحاوَرَہ ہے جس سے مقصود کسی شخص کے نیک صفت ہونے کو بیان کرنا ہوتا ہے ، شرعاً اس میں کوئی قَباحَت نہیں ، بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن سے اس کا اِستعمال ثابِت ہے جیسا کہ مُفَسِّرِ شَہِیر ، حکیمُ الاُمَّت حضرتِ مفتی اَحمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سیِّدُنا مولائے کائنات ، مولا مُشکِل کُشا ، علیُّ المُرتَضٰی شیرِخُدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بارے میں اِرشاد فرماتے ہیں: حضرت علی مرتضٰی( کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ) نے اپنے زمانۂ خِلافَت میں اپنی تلوار گِروی ( یعنی رہن ) رکھی اور فرمایا کہ اگر میرے گھر میں ایک وقت کا بھی کھانا ہوتا تو میں تلوار کبھی گِروی نہ رکھتا ، یہ حضرات اِنسانی لباس میں فرشتے تھے۔
📚 مراٰۃ المناجیح ، ۴ / ۳۶۴ ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیا لاہور
🖋اَلبتہ کسی کی بَدی یا بُرائی بیان کرنے کے لیے اسے فرشتے سے تشبیہ دینا شَرعاً قابلِ گرفت ہے چنانچہ فقہِ حَنَفِی کی مشہور کتاب فتاویٰ ہندیہ میں ہے: دُشمن و مبغوض( یعنی جس سے بُغض ہو اُس ) کو دیکھ کر یہ کہنا: مَلَکُ المَوت آ گئے یا کہا: اسے ویسا ہی دُشمن جانتا ہوں جیسا مَلَکُ المَوت کو ، اس میں اگر مَلَکُ المَوت کو بُرا کہنا ( مقصود ) ہے تو کُفر ہے اور موت کی نا پسندیدگی کی بِنا پر ہے تو کُفر نہیں۔ یوں ہی جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام یا میکائیل عَلَیْہِ السَّلَام یا کسی فِرِشتے کو جو عیب لگائے یا توہین کرے کافِر ہے۔ ( فتاویٰ ھندیة ، کتاب السیر ، الباب التاسع فی احکام المرتدین ، ۲ / ۲۶۶ ملتقطاً دار الفکر بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم
*محمدرضا مرکزی*
خادم التدریس والافتا
*الجامعۃ القادریہ نجم العلوم* مالیگاؤں
No comments:
Post a Comment