*💎گوگل سے جواب دینااور جواب کاپی کرکے اپنانام ڈالناکیسا؟💎*
الحلقة العلمية ٹیلیگرام :https://t.me/alhalqatulilmia
*گوگل سے جواب دینا اور جواب کاپی کر کے اپنا نام ڈالنا کیساھے*
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ شرعی مسائل کے جواب (📗 pdf ) کتاب 📕) (📚علماے اہلسنت وجماعت کے کتب فقہ و فتاوی📚) کو چھوڑ کر 🔍 گوگل ، نیٹ سے نقل کرکے جواب دینا اور اس کا حوالہ نہ دے کر اپنا نام لکھنا کیسا ہے کیا یہ چوری میں شمار نہیں ہوگا جب کہ گوگل کی تحریر بھی کسی نے کسی کی محنت وامانت ہوتی ہے اور اکثر طور پر گوگل والے جوابات پر بھی محرر کا نام درج ہوتا ہے شاذ ونادر ہی نہیں لکھا ملتا ہے تو اس کا نام چھوڑ اپنا نام لکھنا یہ چوری اور کسی کی امانت میں خیانت ہے کی نہیں اگر یہ چوری اور خیانت میں شامل ہے تو ایسے شخص پر کیا حکم شرع ہوگا اور اس کے جواب پر اعتبار واعتماد کرنا چاہیے یا نہیں۔ اور گوگل پر جواب فرقۂ باطلہ کے ہوتے ہیں تو اس فرقۂ باطلہ والے حضرات کی تحریر سے افادہ کرنا کیا یہ خطرناک نہیں ۔ ؟
اور مطلق طور پر گوگل سے نقل کرنا کیا یہ طریقہ بہتر ہے ؟
مفتیان کرام سے التماس ہے کہ اس سوال کو حل فرماکر عند اللہ ماجور ہوں ۔ دور حاضرہ میں اس مسئلہ کے جواب کی بے انتہا ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالی آپ کو نعم البدل عطا فرمائے گا۔
المستفتی : عبد اللہ قادری یوپی الہند؛
ا________(💚)___________
*الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب*
صورت مسؤلہ میں ایساطریقہ قطعادرست نہیں ھے کیونکہ یہ فریب ودھوکہ اور درجہ سرقہ میں شامل ھے اسلئے کہ حقیقت میں گوگل وغیرہ سے نقل جواب میں محنت وقابلیت اسی مجیب کی ھوتی ھے نہ وہاں سے نقل کرنے والے کی جبکہ اسطرح جواب دینے میں لوگ ناقل ہی کی قابلیت وصلاحیت سمجھتےہیں جوکہ خلاف واقع ھےخصوصابعینہ پورا جواب کاپی کرکے اپنا نام ڈالدینا۔وھذا لایخفی علی اھل العلم
نیز مطلقا اسطرح نقل کرکےجواب دینا جائز نہیں جبتک کہ ماخذ اصلی کی طرف مراجعت نہ کرلے بلکہ فقہاء کرام قدست اسراھم نے تو یہاں تک بیان کیا ھے کہ محض ایک آدھ کتاب کو دیکھ کرفتوی دینا جائزنہیں، اور یہ بھی فرمایا کہ مفتی وقاضی کےلئے فرض ھے کہ تحقیق کےساتھ جواب دیں اور جس کےقول یا کتاب سے جواب دیا جارہا ھے روایت ودرایت میں اسکا حال بھی معلوم ھوناضروری ھے لہذا فرقہائےباطلہ ضالہ وغیرھم کے محض فتاوی دیکھ کر جواب دیناکیونکر جائزھوگا جبتک کہ ماخذاصلی و کتب معتبرہ ومستندہ کی جانب مراجعت نہ کرلی جائے
چنانچہ علامہ ابن عابدین الشامی قدس سرہ السامی
علامہ شمس الدین الشہیر ابن پاشا کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں *لا بد للمفتی المقلد ان یعلم حال من یفتی بقولہ ولا نعنی بذالک مغرفتہ باسمہ و نسبہ ونسبتہ الی بلد من البلاد اذ لا یسمن ذالک ولا یغنی بل معرفتہ فی الروایة ودرجتہ فی الدرایة*
*(📚شرح عقود رسم المفتی ص48 مکتبہ زکریا دیوبند )*
*(📘نیزفتاوی خیریہ کے حوالہ سے فرماتے ہیں)*
*المفروض علی المفتی والقاضی التثبت فی الجواب وعدم المجازفة فیھما خوفاً من الافتراء علی اللہ تعالیٰ بتحریم حلال وضدہ*
*(📗ایضا،ص 58)*
اسی میں تھوڑا سے آگے ھے
*تعلم انہ لا ثقة بما یفتی بہ و اکثر اھل زماننا بمجرد مراجعة کتاب من الکتب المتأخرین خصوصا غیر المحررة کشرح النقایة ونحوھا اھ*
*(📓ایضا،ص60)*
((تنبیہ))قلیل الاطلاع اور عامی پر اپنے حفظ ایمان وعقیدہ کے لئے لازم ھے کہ وہ اہلسنت وجماعت یعنی متبعین مسلک اعلی حضرت ہی کی کتابوں کا مطالعہ کریں اور اسی سے استفادہ کریں، کیونکہ انکے لئے وہابی ودیوبندی وبدمذھب وغیرھم کی کتابوں کا پڑھناجائزنہیں
*(📘کمافی العطایا النبویۃ والفتاوی الرضویۃ من الجزء 12علی 221،مطبع رضا اکادمی قدیم۔)*
*ھذا ماسنح لی،واللہ تعالی اعلم بالصواب*
ا________(🖊)___________
*کتبـــہ؛*
*عطا محمد مشاھدی خادم التدریس والافتاء دارالعلوم حشمت الرضا پیلی بھیت شریف یوپی الھند؛*
*مورخہ؛30/9/2020)*
*🖊الحلقةالعلمیہ گروپ🖊*
*رابطہ؛☎8787253829)*
ا________(🖊)__________
*🖌المشتـــہر فضل کبیر🖌*
*منجانب؛منتظمین الحلقةالعلمیہ گروپ؛محمد عقیل احمد قادری حنفی سورت گجرات انڈیا؛*
ا________(🖊)__________
914
No comments:
Post a Comment