Friday, December 9, 2022

ایک دیہات گاؤں میں جمعہ ہوتا ہے اور جمعہ نماز کے دو فرض کے بعد ظہر کی چار رکعت فرض نماز نہیں ادا کی جاتی ہے جماعت کے ساتھ۔ تو پھر مقتدیوں کے لئے کیا ضروری ہے کہ وہ ظہر کی چار رکعت فرض نماز پڑھیں یا پھر جمعہ کی چار رکعت سنت مؤکدہ ادا کریں تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
سوال یہ ہے کہ ایک دیہات گاؤں میں جمعہ ہوتا ہے اور جمعہ نماز کے دو فرض کے بعد ظہر کی چار رکعت فرض نماز نہیں ادا کی جاتی ہے جماعت کے ساتھ۔ 
تو پھر مقتدیوں کے لئے کیا ضروری ہے کہ وہ ظہر کی چار رکعت فرض نماز پڑھیں یا پھر جمعہ کی چار رکعت سنت مؤکدہ ادا کریں تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
 السائل> احمد حسین رضوی گھوسی 

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب 
 صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ گاؤں میں جمعہ کی نماز درست نہیں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں حضور فقیہ ملت تحریر فرماتے ہیں کہ؛ گاؤں میں جمعہ کی نماز درست نہیں لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انہیں منع نہ کیا جائے کہ وہ جس طرح بھی اللہ ورسول کا نام لیں غنیمت ہے
 ایسا ہی فتاوی رضویہ جلد سوم صفحہ نمبر {714} 
میں ہے گاؤں میں اگر جمعہ کے نام پر نماز پڑھی گئی تو اس سے ظہر کی نماز ساقط نہیں ہوگی لہٰذا گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز پڑھنا فرض ہے اور جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب ہے اس کے لئے تکبیر بھی کہی جائے گی۔حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز اذان و اقامت کے ساتھ پڑھیں 
(بہار شریعت حصہ چہارم صفحہ نمبر 102) 
 گاؤں میں بنام جمعہ دورکعت پڑھنے کے لئے چاہے فرض کی نیت کریں یا نفل کی بہرحال وہ نماز نفل ہی ہوگی چار رکعت سنت ظہر اور فرض نماز ظہر باجماعت کے درمیان دورکعت بنام جمعہ کے سبب وقفہ سے کوئی خرابی نہیں گاؤں میں اگرچہ جمعہ نہیں ہے صرف ظہر فرض ہے لیکن جس گاؤں میں جمعہ قائم ہے اسے بند نہ کیا جائے گا کہ عام طور پر لوگ جو پنج وقتہ نماز نہیں پڑھتے وہ جمعہ کے نام سے آٹھ دن پر مسجد میں حاضر ہوجاتے ہیں اور اللّٰہ ورسول کا نام لے لیتے ہیں 
{فتاوی فقیہ ملت جلد اول صفحہ نمبر 241} 
 الحاصل کلام یہی ھے کہ گاؤں میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، خلاصہ کلام یہ ھے کہ دو رکعت جمعہ کے بعد چار فرض، دو سنت، دو نفل ادا کریں اور واجب ھے کہ امام صاحب دو رکعت جمعہ کے بعد ظہر کی چار رکعت جماعت سے پڑھائیں
 واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ 

کتبہ؛ محمد الطاف حسین قادری 
خادم التدریس دارالعلوم غوث الورٰی ڈانگا لکھیم پور کھیری یوپی الھند 

منجانب؛ محفل غلامان مصطفیٰﷺ گروپ

Friday, November 4, 2022

الیکشن میں مسلمان سے روپیہ دیکر ووٹ خریدا جاتا ہے اور مسلمان بھی شوق سے روپیہ لیکر ووٹ دیتے ہیں واضح رہے لینے والا اور دینے والا دونوں سنی بریلوی ہیں دونوں پر کیا حکم نافذ ہوگا؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
 کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ الیکشن میں مسلمان سے روپیہ دیکر ووٹ خریدا جاتا ہے اور مسلمان بھی شوق سے روپیہ لیکر ووٹ دیتے ہیں واضح رہے لینے والا اور دینے والا دونوں سنی بریلوی ہیں دونوں پر کیا حکم نافذ ہوگا؟ 
حوالہ کے ساتھ فتویٰ کی شکل میں جواب عنایت فرمائیں

 سائل محمد ساجد رضا انڈین ضلع بلرامپور

  جواب

الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ 
 الیکشن کے ایام میں امیدوار سے ووٹ کے عوض روپیہ پیسہ یا دیگر اشیاء لینا دینا رشوت ہے اور رشوت لینا، دینا دونوں سخت ناجاٸز و حرام ہے، کیونکہ شریعت مطہرہ میں رشوت وہ مال ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لیے دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری یا عہدہ دے دے جسے وہ چاہتا ہے

  قال العلامة إبن عابدین: الرشوۃ بالکسر ما یعطیه الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم له أو یحمله علی ما یرید

(ردالمحتار جلد ٤ صفحہ ٣٣٧)

 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں رشوت لینا مطلقا حرام ہے جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے رشوت ہے یوں ہی جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے

 (فتاوی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ ۵۹۷) 

 محقق مساٸل جدیدہ مفتی نظام الدین صاحب فرماتے ہیں کہ عام طور پر یہ جو امیدواروں سے لین دین ہوتی ہے یہ لین دین رشوت کی لین دین ہوتی ہے جو حرام و گناہ ہے

 (سوالات جوابات صفحہ١٧٠) 

 البتہ الیکشن جیت جانے کے بعد امیدوار بطور خود نیاز مندانہ طور پر کچھ دے تو اس کا لینا دینا جاٸز و درست ہے

  واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

فقیر محمد عمران خان قادری غفر لہ

نہروسہ ،پیلی بھیت یوپی انڈیا

 ٢٨/رجب المرجب ١٤٤٢ھ

Sunday, September 4, 2022

ساتذہ (ٹیچر ڈے) منانا کیسا ہے

‎یوم اساتذہ (ٹیچر ڈے) منانا کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: یوم اساتذہ منانا کیسا ہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی ۔

المستفتی: محمد انتخاب عالم سراجی اتر دیناج پور بنگال۔



وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب حامداومصلیاومسلما:

 یوم اساتذہ منانا جائز ہے۔

فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی قدس سرہ العزیز ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: یوم اساتذہ منانا جائز ہے خواہ وہ کسی بھی تاریخ میں ہو کہ اس میں اساتذہ کی تعظیم اور ان کے شکر و احسان کی بجا آوری ہے اور اپنے استاد کی تعظیم جس طرح بھی کی جائے درست اور جائز ہے 

اعلی حضرت  امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ  ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں کہ: استاد علم دین کا مرتبہ ماں باپ سے زیادہ ہے وہ مربی بدن ہیں یہ مربی روح جو نسبت روح کو بدن سے ہے وہی نسبت استاد سے ماں باپ کو ہے "کما نص علیہ العلامتہ الشر نبلالی فی غنیتہ ذوی الاحکام و قل فیہ ذا ابو الروح لا ابو النطف" 

(فتاویٰ رضویہ  جلد نہم،نصف آخر صفحہ  ١٤١)

لیکن نابالغ بچے اپنا روپیہ چندہ میں نہیں دے سکتے البتہ گھر والے جو چندہ دے اسے پہنچا سکتے ہیں 

جیسا کہ درالمختار مع شامی جلد ٥، ص ٦٨٧ پر ہے کہ: "لا تصح ھبتہ الصغیرۃ اھ" 

(بحوالہ فتاوی فقیہ ملت، ج ٢،ص ٢٨٠/٢٨١،شبیربرادرز)



تنبیہ: بالغ بچیاں تحفہ وتحاٸف وغیرہ اساتذہ کو پیش نہ کریں کیونکہ دورحاضر میں فتنہ میں پڑنے کا بسیار اندیشہ ہے۔

اور مزید یہ کہ یوم اساتذہ منانے میں اس بات کا بھی خاص خیال رکھے کہ  شریعت مطہرہ کے خلاف کوٸی فعل صادر نہ ہو ورنہ فعل قبیح پرگناہ وعتاب وعذاب  ہوگا.

واللہ تعالی اعلم بالصواب۔



کتبہ: ابو کوثر محمد ارمان علی قادری جامعی

 ،سیتامڑھی۔۔

٢٦/محرم الحرام ١٤٤٣ھ۔

٥/ستمبر٢٠٢١ ٕ  ۔

بروز اتوار۔

Thursday, September 1, 2022

فون پر طلاق دینے سے طلاق پڑ جاتی ہے/ثبوت طلاق کی صورتیں/طلاق دیکر انکار کرنے کا حکم

فون پر طلاق دینے سے طلاق پڑ جاتی ہے/ثبوت طلاق کی صورتیں/طلاق دیکر انکار کرنے کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے ہندہ کو فون پر تین طلاق دیا اسکی خبر زید کے باپ کو بھی ہے اس کے بعد ہندہ اپنے میکے چلی آئی  اس کے بعد زید اپنی بیوی ہندہ کو لینے کیلئے آیا تو زید کی ساس نے پوچھا کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم طلاق دے دئے ہو تو اس نے اس بات کا اقرار کیا کہ یہ بات صحیح ہے جس وقت اقرار کیا تھا اس وقت ایک مرد اور ایک عورت موجود تھی لیکن اب زید اور اس کا باپ صاف انکار کر رہا ہے ایسی صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں حکم شرع بیان فرمائیں کرم ہوگا۔ 

الجواب۔ زید کے والد کے علم سے طلاق ثابت نہیں ہو سکتی اسی طرح ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی سے بھی کیونکہ ثبوت طلاق کیلئے شوہر کا اقرار یا دو مرد یا ایک مرد اور دو عادل ثقہ عورتوں کی گواہی ضروری ہے۔
قال الله تعالی فی کتابه الکریم: وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ۔ لہذا اگر شوہر اقرار کر لے تو شرعا طلاق واقع ہو جائے گی کہ اس کا اقرار کرنا ہی طلاق ہے لیکن شوہر اقرار نہ کرے اور عورت دعوی پیش کرے تو شوہر کو سمجھایا جائے کہ واقعی اگر طلاق دی ہے تو پھر بہت گناہ ہوگا اور زندگی بھر زنا کا ارتکاب ہوگا اگر پھر بھی نہ مانے تو کسی ولی الله کے مزار پر لے جاکر اس طرح قسم کھلوائیں کہ بخدا میں نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی اگر میں اپنے قول میں جھوٹا ہوں تو کوڑھی اندھا ہو جاؤں اسی طرح تین بار قسم لیں اگر قسم کھانے سے انکار کر دے تو ظاہر ہے کہ جھوٹ بول رہا ہے 
لہذا کسی طرح اس سے طلاق کا اقرار کرا لیں اگر اقرار کر لے تو طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر قسم کھا لے تو شوہر کے قول کو معتبر مانا جائے گا اور طلاق واقع نہ ہوگی کہ طلاق شوہر کے اقرار یا دو مرد یا ایک مرد اور دو عادل ثقہ عورتوں کی گواہی سے ثابت ہو سکتی ہے اور یہاں تینوں صورتیں مفقود ہیں اور جھوٹی قسم کھانے کاوبال اسی کے سر ہوگا صحیح مسلم میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "و ان الکذب فجور وان الفجور یھدی الی النار"(ج٤، ص٢٠١٣،ش)-

والله تعالی اعلم
شان محمد المصباحی القادری
١١ جولائی ٢٠١٩

Wednesday, August 31, 2022

مسلک اعلی حضرت کیا ہے؟

مسلک اعلی حضرت کیا ہے؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل سوالات کے بارے میں۔

(1)مسلک اعلی حضرت کیا ہے ہے؟

(2)کیا سنی ہونے کے لئے مسلک اعلی حضرت کو ماننا ضروری ہے؟

(3) مسلک اعلیحضرت لگانا کیسا ہے ہے؟

(4)کیا نعرہ مسلک اعلی حضرت لگانا شدت پسندی ہے ؟

(5)کیا مسلک اعلی حضرت کا نعرہ آج سے پہلے بزرگوں نے لگایا ہے ؟

(6) اگر کوئی مسلک اعلی حضرت کو نہ مانیں تو وہ سنی رہے گا یا نہیں؟

مذکورہ تمام سوالوں کے جواب حوالے اور دلائل کے ساتھ عنایت فرمائیں ۔اور مسلک اعلی حضرت کی وضاحت میں قرآن و حدیث اقوال سلف و خلف کی مثالیں بھی عنایت فرمائیں۔

( نوٹ )حالات کے پیش نظر کثیر علماء اہلسنت کی دستخط کی ضرورت درپیش ہے۔ اس لئے برائے کرم ادارے کے علماء کے دستخط کے ساتھ جواب ارسال فرمائیں ،بہت نوازش ہوگی ۔

جواب:
عرف ناس شاہد ہے کہ اعلی حضرت کا لفظ اس زمانے میں” اہل سنت و جماعت” سے کنایہ ہوتا ہے ،جیسے حاتم کا لفظ سخاوت سے ،موسی کا لفظ حق، اور فرعون کا لفظ مبطل سے کنایہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ لفظ اہل سنت و جماعت کی شناخت اور پہچان بن چکا ہے ۔کسی بھی مقام پر کوئ شخص اگر لفظ “اعلی حضرت بول دیتا ہے تو سننے والے بلاتامل یقین کر لیتے ہیں اور ہر شخص سمجھ جاتا ہے یہ اہل سنت و جماعت سے ہے۔

اجل علمائے مکہ معظمہ حضرت مولانا سید محمد مغربی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث حرم مکہ فرماتے ہیں:جب ہندوستان سے کوئی آتا ہے تو ہم اس سے مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب کے بارے میں پوچھتے ہیں اگر وہ ان کی تعریف کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ اہل سنت سے ہے اور اگر ان کی برائی کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ بدمذہب ہے ۔یہی ہماری قسوٹی ہے پہچاننے کا۔

حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی رحمتہ اللہ علیہ قاضی القضاۃمکہ معظمہ اعلی حضرت کی شان میں فرماتے ہیں :کہ ہم اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کو ان کی تصنیفات و تالیفات سے پہچانتے ہیں ان کی محبت سنیت کی علامت ہے اور بغض رکھنا بد مذہبی کی پہچان ہے۔

الحاصل اعلی حضرت کا لفظ سنیت کی شناخت اور پہچان ہے۔ عرف عام میں اہلسنت کا مترادف ہے اس لئے مسلک اعلی حضرت کا معنی ہے مسلک اہل سنت جس کا اطلاق بلاشبہ جائز ہے۔

ممکن ہے کسی کے دل میں یہ شبہ گزرے کہ جب اس کا معنی مسلک اہل سنت ہے تو پھر لفظ اعلی حضرت کے ذکر سے کیا فائدہ ہے؟

اس کا جواب کسی ذی ہوش سےپوشیدہ نہیں آج حالت یہ ہے کہ سنی کا لفظ شیعہ کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ اس لیے سنی کا لفظ آج وہابیوں دیوبندیوں ،ندویوں وغیرہ سے امتیاز کے لیے کافی نہ رہا، یہی حال آج لفظ اہل سنت کا بھی ہے۔ وہابی اپنےکو وہابی اور دیوبندی اپنے کو دیوبندی نہیں کہتے بلکہ وہ بھی اپنے آپ کو اہل سنت ہی کہتے ہیں اور اپنے علماء کو حامی سنت اور امام اہل سنت کا خطاب دیتے ہیں ۔اس لیے یہ لفظ بھی آج اہل سنت اور اہل بدعات وہابیہ و دیابنہ غیروں کے درمیان امتیاز کے لیے کافی نہ رہا ۔

اب ہمارے جو بھائی کسی ذاتی رنجش اور باہمی چپقلش کی وجہ سے اعلی حضرت کی شان گھٹانے میں لگے ہوئے ہیں تھوڑی دیر کے لئے خالی الذہن ہوکر ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ بدمذہبوں سے امتیاز کے لیے کونسا جامع مختصر لفظ انتخاب کیا جائے، ہمیں یقین ہے کہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مسلک اعلی حضرت کے لفظ سے زیادہ موضوع کوئی لفظ نہیں ،کیونکہ سنیت کاشعار یہی لفظ ہے۔ اہل سنت کی شناخت یہی کلمہ ہے ،بدمذہبوں سے امتیاز اسی کا خاصہ ہے ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ باہمی اختلاف کے نتیجے میں کچھ کرم فرماؤں نے اسے سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کی جو بے دلیل ہونے کی وجہ سے سابقہ اتفاق میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتا۔

حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے مسلمان اچھا جانے وہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ مسند احمد بن حنبل ۔

صحابی رسول حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ قبر میں دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ مادینک یعنی تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے دینی الاسلام یعنی میرا دین اسلام ہے۔

مشکوۃ شریف صفحہ 25 بروایت ابو داود

اس حدیث میں ایک فردخاص کی طرف دین کی نسبت ہے تو اعلی حضرت کی طرف مسلک کی نسبت میں کیا قباحت ہے ،جبکہ لفظ اعلی حضرت معیار حق ہے۔

اس تمہید کو ذہن میں رکھنے کے بعد ترتیب وار ہر سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیے۔

(1) مسلک اعلی حضرت ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ کا انعام ھوا ۔قرآن شریف کی پہلی سورہ ،سورہ فاتحہ میں ہے صراط الذین انعمت علیہم” ان لوگوں کا راستہ جن پر اللہ تبارک و تعالی نے انعام فرمایا ۔

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: صراط مستقیم طریقہ اہل سنت ہے جو اہل بیت و اصحاب اور سنت و قرآن و سواد اعظم سب کو مانتے ہیں۔

یہ وہ مسلک ہے جس پر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام ر ہے۔ حدیث میں ہے صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملت ناجیہ کون ہے؟ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں ۔بعض روایتوں میں ہے یعنی جماعت اہلسنت ہے ۔

مشکوۃشریف صفحہ30

یہ مسلک سواد اعظم ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سواد اعظم کی پیروی کرو۔

مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے آخری وقت مدینہ منورہ میں یہ وصیت تحریر فرمائی تھی۔” الحمدللہ میں مسلک اہل سنت پر زندہ رہا اور مسلک حق اہلسنت وہی ہے جو اعلی حضرت کی کتابوں میں مرقوم ہیں، اور الحمداللہ آخری وقت اسی مسلک پر حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں خاتمہ بالخیر ہو رہا ہے۔

ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ شمارہ صفر 1416ھجری صفحہ 10 بحوالہ ماہنامہ ترجمان اہلسنت کراچی شمارہ ذی الحجہ 1397 ہجر ی

مسلک اعلی حضرت کا ابھی جو تعارف کرایا گیا اس کے ثبوت کے لئے کھلے ذہن سے آپ کی تصانیف مبارکہ جیسے

حسام الحرمین ،فتاوی الحرمین الدولۃ المکيہ، الکوکبۃالشہابيۃ، سبحان الصبوح، النہی الاکيد ،ازالۃ الاثار،اطائب الصیب، رسالہ في علم العقائد والکلام ،تمہيدايمان، الامن والعلا ،تجلی اليقين ،الصمصام ،رد الرفضہ ،جزاء الله يعجبه ،خالص الاعتقاء، انباء المصطفى، الزبده الزكيه،شمائم العنبر، دوام العيش، انفس الفكر،الفضل الموہبی ۔ ان ساری کتابوں کا مطالعہ کرنا کافی ہے۔

(2۔3۔4۔5۔6)
جب یہ حقیقت بخوبی واضح اور عیاں ہوگئی کہ مسلک اعلی حضرت کا معنی مسلک حق اہلسنت و جماعت ہے، تو ان امور میں جو موقف اور جوحکم اہل سنت کے نزدیک لفظ” اہل سنت و جماعت کا ہے وہی حکم مسلک اعلی حضرت کا بھی ہے۔اب ہر شخص اپنے طور پر انصاف اور دیانت کے ساتھ خود فیصلہ کرے اورعنادسے باز رہے۔

دارالافتاء میں بارہا اس طرح کے سوالات آتے ہیں اور سب ایک مخصوص علاقے سے ہی آتے ہیں، ہم اپنے بھائیوں سے گزارش کرتے ہیں وہ ذرا یہ بھی سوچیں کہ وہ کسروش پرچل رہے ہیں؟ کیا ٹھیک اسی طرح کے سوالات ایک بدبودار غیر مقلد نہیں کرتا ہے ،کہ مسلمانوں کا مذہب تو صرف ایک اسلام ہے یہ چار مذاہب کہاں سے پیدا کیے گئے ۔کیا حنفی، مالکی ،شافعی، حنبلی مذاہب اسلامف کے زمانے میں تھے وغیرہ وغیرہ ۔

ٹھیک اسی طرح کی باتیں کیا تصوف کے دشمن مشرب قادری ،چشتی ،نقشبندی ،سہروردی پھر ان کے گوناگوں شاخوںکے بارے میں نہیں کرتے ؟ذرا اور قریب آئیے کیا رضوی اور اشرفی کہنا شدت پسندی ہے؟ کیا اسلاف نےاپنے اآپ کورضوی کہا ہے ؟یہ سب عامیانہ باتیں ہیں جو جاہل عوام کو فقہا،صوفیا،علماسے برگشتہ کرنے کے لئے ان کے معاند کہا کرتے ہیں ۔تو ہمارے بھائیوں کو تو کم از کم ان کی روش پر نہ چلنا چاہیے جو لوگ عرف و عادت اور حالت زمانہ سے اآنکھیں بند رکھتے ہیں،انھیں یہی سب سوجھتا رہتا ہے ۔فقہا فرماتے ہیں : جو زمانہ کے حالات سے واقف نہیں ہے تو وہ جاہل ہے ۔

واللہ تعالی اعلم

محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی نظام الدین رضوی ۔جامعہ اشرفیہ مبارکپور

Tuesday, August 30, 2022

ماہ صفر میں شادی بیاہ اور صفر کے آخری بدھ کی حقیت ]

*صفر کا مہینہ منحوس یا مسعود۔۔۔۔۔؟؟؟*

[ ماہ صفر میں شادی بیاہ اور صفر کے آخری بدھ کی حقیت ]

    صفر المظفر سنہ ہجری کا دوسرا بابرکت مہینہ ہے۔ محقق علی الاطلاق مولوی عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، "ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے: عرب کے نزدیک "صفر" پیٹ کے اندر کے سانپ کے ہیں، جو انسان کو بھوک کی حالت میں ڈستا رہتا ہے ۔
   اس ماہ کے تعلق سے پھیلی ہوئی منحوس روایات و توہمات آج کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ اس کا تعلق زمانہ جاہلیت ہی سے ہے۔ دورجاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور صفر میں شادی بیاہ ،لین دین اور کسی بھی طرح کا مہتم بالشان کام کرنے سے گریز کرتے تھے۔ امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ مشارق الانوار میں لکھتے ہیں, “لوگ ماہ صفر کو بڑھا کر ماہ محرم کو بھی اس میں شامل کرلیتے تھے“۔

یہ تو بنی نوع آدم پر اسلام کا احسان عظیم ہے کہ بے شمار خرافات و توہمات کی بیخ کنی کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام نے اس ماہ کے تعلق سے پھیلی کئی بے سرو پا باتوں کا قلع قمع کیا اور اس منحوس سمجھے جانے والے صفر کو “مظفر“ کا حسین ترین لبادہ پہنادیا۔

کتنی افسوس کی بات ہے!  آج بھی کچھ حلقوں میں اس مہینہ کو بالخصوص اس کے آخری بدھ کو منحوس سمجھا جاتاہے۔ خطبات الناصحین نامی کتاب میں ایک لمبی من گڑھت حدیث مرقوم ہے۔ جس کا آخری حصہ ہے کہ “حضرت جبرئیل امین نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ حضور ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اللہ تعالی نےتمام بلائیں دس حصوں میں تقسیم کی ہے ان میں سے نو حصے صرف ماہ صفر میں نازل ہوتی ہیں“ (ص، 547) اسی طرح یہ قول بھی حضرت شیخ فرید الدین عطار علیہ الرحمہ کی جانب منسوب کی جاتی ہے کہ ہر سال دو لاکھ اسی ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں اور صرف ماہ صفر میں تین لاکھ اسی ہزار بلائیں “ (ایضا) لطف کی بات یہ ہے کہ مرزا غالب کے دور میں صفر کی نحوست اتنی مشہور تھی کہ غالب نے صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ) کے استعارے میں ایک مکمل کلام ہی لکھ ڈالا ہے۔ پہلا شعر ہے، ؎

ہے چہار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کےمے مشک و بو کی ناند

    ماضی قریب میں حضور بحر العلوم علامہ مفتی عبد المنان اعظمی صاحب علیہ الرحمہ کے پاس ایک استفتا آیا، جس میں سائل نے پوچھا تھا، ”کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین، صفر کے آخری چہار شنبہ کی کیا حقیقت ہے؟ کئی جگہ لوگ بڑے اہتمام سے وضو کرتے ہیں،پرانے برتنوں کو توڑدیتے ہیں ،نئے برتنوں میں کھانا پکا کر حضور اقدس علیہ الصلٰوة والسلام کو نیاز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی دن حضور کو صحت حاصل ہوئی تھی، اور کہتے ہیں کہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اقدس کو مرض وصال شروع ہوا تھا“. (فتاوی بحر العلوم 5، ص، 266)
اس طرح کی تمام روایات موضوع ،من گھڑت، خودساختہ اور نوپیدہ ہیں جن کو حقیقت سے دور کا بھی رشتہ نہیں۔ مولانا تطہیر احمد رضوی بریلوی صاحب فتاوی رضویہ شریف کے حوالے سے لکھتے ہیں، ”بعض جگہ کچھ لوگ اس دن (مذکورہ بالا) کو منحوس خیال کرکے برتنوں وغیرہ کو توڑتے ہیں یہ بھی فضول خرچی اور گناہ ہے۔ صفر کے مہینے کے آخری بدھ کی اسلام میں کوئی خصوصیت نہیں“۔ (غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح )

*چند احادیث گوش گزار کریں!*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تعدّی اور صَفَر کی کوئی حقیقت نہیں “۔ (بخاری ، 5717/مسلم، 5919) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ شگون، تکلیف، ایذا اور چھوت کسی پر اثر انداز نہیں ہوتی نیز کوئی مہینہ کبھی ساٹھ دن کا نہیں ہوتا۔ (ما ثَبَتَ بالسنّة بحواله طبرانی) اس ماہ مبارک کے تعلق سے پھیلی واہمات کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بظاہرصفر کے مہینہ میں کوئی خاص اسلامی تہوار نہیں ہے۔
لیکن اگر تھوڑا غور کیا جائے تو ماہ صفر ایک حیثیت سے دیگر کئی مہینوں سے ممتاز نظر آتا ہے۔ سال کے گیارہ مہینوں میں جتنے بزرگان دین کےاعراس ہوتے ہیں، کم و بیش اتنے ہی اعراس تنہا ماہ صفر میں آتے ہیں۔ اور صحیح حدیث میں آیا ہے ”عندَ ذكرِ الصالِحينَ تنزّل الرّحمة“ یعنی صالحین کے ذکر کی جگہ / وقت خدا کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان مردان خدا کے اعراس کے وقت ان کا ذکر خیر ہی ہوتاہے. (فی زماننا جو برائیاں بعض مشائخ کے اعراس میں رائج ہوگئی ہیں راقم ان سے بیزار ہے) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے فرماتے ہیں، ”اعراس سے ارواح اولیاء سے عشق ومحبت پیدا ہوتا ہے، اسی سے فنا فی الشیخ کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے ، اسی راز کے تحت اعراس مشائخ کی حفاظت کی جاتی ہے اور انکے مزارت کی زیارت پر مداومت اور ان کے لیے فاتحہ خوانی ہوتی ہے“ ( تحفئہ محمدیہ، ص، 24) شاہ اسماعیل دہلوی قتیل نے بھی اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھا ہے ، “پس امور مروجہ یعنی اموات کے فاتحوں، عرسوں اور نذر و نیاز کی خوبی میں شک و شبہ نہیں“. (صراط مستقیم، 76 )
آئیے اس ماہ میں ہونے والے اعراس پر سر سری نظر ڈالتے ہیں۔
پہلی تاریخ کو مارہرہ مقدسہ میں عرس قاسمی شریعت مطہرہ کے دائرہ میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے نیز عرس وارث پاک،
دوسری تاریخ کو محدث پیلی بھیتی، تین کو حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی، چار کو قطب الدین جونپوری، چھ کو شارح بخاری مفتی شریف الحق صاحب امجدی کے اعراس ہیں۔ رضوان اللہ تعالی علیھم۔
اسی طرح ۷/ کو شیخ بہاء الدین ذکریا ملتانی، 
۹/ کو ,حضرت امام موسی کاظم، ۱۱/ کو مفسر قرآن علامہ ابراہیم رضا خان بریلوی ، ۱۳ /کو حضرت امام نسأی، ۱۴/ کو حضرت مالک بن دینار، ۱۵/ کو سید الطائفہ حضرت بایزید بسطامی، ۱۶/ عاشق رسول سید احمد کبیر رفاعی / رئیس القلم حضرت علامہ ارشدالقادری ، ۱۸/کو سلطان المشائخ داتا گنج بخش ہجویری  لاہوری، ۲۲/ کو شاہ مینا لکھنوی، ۲۳/ صفر کو حضرت امام باقر، ۲۴/کو علامہ شمس الدین سیالوی، ۲۵/ کو مجدد اعظم اعلی حضرت شاہ امام احمد رضا خان بریلوی، ۲۶/کو علامہ عینی، ۲۸/کو حضرت امام حسن ابن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی شہادت) ۲۹/ کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی، اور ۳۰/ صفر المظفر کو امام حاکم نیشاپوری وصال فرمائے۔ (رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین)
جن میں سے اکثر  کے دربار میں ان کے اعراس کے وقت ارادت مندوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اور ان کے اعراس ان کے محبین کے لیے عید جیسے ہوتے ہیں۔
گویا ان بزرگان دین کی اس مہینہ میں وفات نے اس منحوس (بزعم بعضے) ماہ کو مسعود بنادیا ہے۔  ؎
بجھی شفق تو ستاروں نے ضیاء پائی
کسی کی موت کسی کی حیات بنتی ہے


از: (مفتی) *انصار احمد مصباحی،*
دار العلوم رضاے مصطفیٰ، اورنگ آباد، مہاراشٹر۔ 9860664476

Wednesday, August 24, 2022

نام رسالت پر انگوٹھے نہ چومنے والا دیوبندی نہیں

نام رسالت پر انگوٹھے نہ چومنے والا دیوبندی نہیں 

کیا تقبیل ابھام نہ کرنے سے کوئی گناہ ہے مع حوالہ وضاحت فرمائیں؟
المستفتی: مولانا محمد نوشاد عالم تلوار جراری فرخ آباد یوپی

الجواب۔اذان میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک سن کر انگوٹھے چومنا اور آنکھوں سے لگانا جائز و مستحب اور باعث خیر و برکت ہے
ردالمحتار میں ہے "ﻳﺴﺘﺤﺐ ﺃﻥ ﻳﻘﺎﻝ ﻋﻨﺪ ﺳﻤﺎﻉ اﻷﻭﻟﻰ ﻣﻦ اﻟﺸﻬﺎﺩﺓ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻚ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻭﻋﻨﺪ اﻟﺜﺎﻧﻴﺔ ﻣﻨﻬﺎ ﻗﺮﺕ ﻋﻴﻨﻲ ﺑﻚ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺛﻢ ﻳﻘﻮﻝ اﻟﻠﻬﻢ ﻣﺘﻌﻨﻲ ﺑﺎﻟﺴﻤﻊ ﻭاﻟﺒﺼﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﺿﻊ ﻇﻔﺮﻱ اﻹﺑﻬﺎﻣﻴﻦ ﻋﻠﻰ اﻟﻌﻴﻨﻴﻦ ﻓﺈﻧﻪ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﻳﻜﻮﻥ ﻗﺎﺋﺪا ﻟﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﺠﻨﺔ ﻛﺬا ﻓﻲ ﻛﻨﺰ اﻟﻌﺒﺎد اﻩ۔ ﻗﻬﺴﺘﺎﻧﻲ ﻭﻧﺤﻮﻩ ﻓﻲ اﻟﻔﺘﺎﻭﻯ اﻟﺼﻮﻓﻴﺔ ﻭﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ ﻇﻔﺮﻱ ﺇﺑﻬﺎﻣﻪ ﻋﻨﺪ ﺳﻤﺎﻉ ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻓﻲ اﻷﺫاﻥ ﺃﻧﺎ ﻗﺎﺋﺪﻩ ﻭﻣﺪﺧﻠﻪ ﻓﻲ ﺻﻔﻮﻑ اﻟﺠﻨﺔ ﻭﺗﻤﺎﻣﻪ ﻓﻲ ﺣﻮاﺷﻲ اﻟﺒﺤﺮ ﻟﻠﺮﻣﻠﻲ ﻋﻦ اﻟﻤﻘﺎﺻﺪ اﻟﺤﺴﻨﺔ ﻟﻠﺴﺨﺎﻭﻱ"(ج١،ص٣٦٧)۔
بہار شریعت میں ہے" جب مؤذن اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہے تو سُننے والا درود شریف پڑھے اور مستحب ہے کہ انگوٹھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگا لے اور کہے قُرَّۃُ عَیْنِیْ بِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ" (ح٣،ص٤٧٤)۔
لہذا اگر کوئی شخص نام پاک سن کر انگوٹھے نہیں چومتا مگر جائز و مستحب سمجھتا ہے اور چومنے والوں پر ملامت روا نہیں جانتا نیز چومنے والوں پر ملامت کرنے والوں کو برا جانتا ہے تو کوئی حرج نہیں اور اگر اسلئے نہیں چومتا کہ ناجائز سمجھتا ہے تو شبہ وہابیت و دیوبندیت ہے کہ وہی اسے ناجائز و بدعت گردانتے۔
فتاوی رضویہ میں ہے" جبکہ مستحب جانتا ہے اور فاعلون پر اصلا ملامت روا نہیں جانتا فاعلون پر ملامت کرنے والوں کو بُرا جاننا ہے تو خود اگر احیانا کرے احیانا نہ کرے ہرگز قابلِ ملامت نہیں فان المستحب ھذا شانہ"(ج٥، ص٤١٥)۔
بہار شریعت میں ہے "مُستَحب وہ کہ نظرِ شرع میں پسند ہو مگر ترک پر کچھ ناپسندی نہ ہو خواہ خود حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے کِرام نے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر مطلقاً کچھ نہیں" (ح٢، ص٢٨٣)۔
اسی طرح اذان و تکبیر کے علاوہ نام پاک مصطفی علیہ الصلاۃ والتسلیم سن کر انگوٹھا چومنا جائز و مستحن ہے کہ اس میں بھی حضور علیہ السلام کی تعظیم ہے اور حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جیسے بھی کی جاے باعث ثواب ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے"جائز بلکہ مستحب ہے جبکہ کوئی ممانعت شرعی نہ ہو مثلاً حالت خطبہ میں یا جس وقت قرآن مجید سُن رہاہے یا نماز پڑھ رہا ہے ایسی حالتوں میں اجازت نہیں باقی سب اوقات میں جائز بلکہ مستحب ہے جبکہ بہ نیتِ محبت وتعظیم ہو اور تفصیل ہمارے رسالہ منیر العین میں ہے" (ج٥،ص٤١٦)۔

واللہ تعالی اعلم
شان محمد المصباحی القادری
١٦ربیع الأول ١٤٤٣

Wednesday, August 17, 2022

فوت شدہ بیوی کا چہرہ دیکھنا ، جنازے کو کندھا دینا اور قبر میں اتارنا کیسا؟*

🛑🛑 *فوت شدہ بیوی کا چہرہ دیکھنا ، جنازے کو کندھا دینا اور قبر میں اتارنا کیسا؟*

👈سوال :  *بیوی کے انتقال کے بعد شوہر اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے یا نہیں ؟نیز کیا اس کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے  اور قبر میں بھی اتار سکتا ہے ؟*

👏سائل: *محمد اسید نوری* ممبی

*اَلْجَوَابُ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ*

    ✍عورت کے انتقال کے بعداس کےشوہر کا عورت کے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانا منع ہے۔بقیہ  اس کے چہرے کودیکھنا یا اس کے جنازہ کو کندھا دینا اور قبر میں اُتارنا  یہ سب جائز ہے ، اس میں شریعت ِ  مطہرہ کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں ۔

 ✍   اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: اگر عورت مر جائے تو شوہر اس کے جنازے کو ہاتھ لگائے یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں: ” جنازے کو محض اجنبی ہاتھ لگاتے، کندھوں پر اُٹھاتے، قبر تک لے جاتے ہیں، شوہر نے کیا قصور کیا ہے۔یہ مسئلہ جاہلوں میں محض غلط مشہور ہے۔ہاں شوہر کو اپنی زنِ مردہ کا بدن چھونا ، جائز نہیں، دیکھنے کی اجازت ہے۔کمانص علیہ فی التنویر والدر و غیرھما ۔اجنبی کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں۔محارم کو پیٹ، پیٹھ اور ناف سے زانوتک کے سوا چھونے کی بھی اجازت ہے۔“

    اسی سے متصل ایک اور سوال ہوا : زوجہ کا جنازہ شوہر کو چھونا کیسا ہے؟ چھونا چاہئے یا نہیں؟ شوہر کا اپنی زوجہ کا منہ قبر میں رکھنے کے بعددیکھنا کیسا ہے ،چاہئے یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں:” شوہر کو بعدِ انتقالِ زوجہ قبر میں خواہ بیرونِ قبر اس کا منہ یا بدن دیکھنا جائز ہے، قبر میں اتارنا ، جائز ہے اور جنازہ تو محض اجنبی تک اٹھاتے ہیں، ہاں بغیر حائل کے اس کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کو ناجائز ہوتا ہے۔

    زوجہ کو جب تک عدت میں رہے شوہر مردہ کا بدن چھونا بلکہ اسے غسل دینا بھی جائز رہتا ہے۔یہ مسئلہ درمختار وغیرہ میں ہے۔“

📚(فتاویٰ رضویہ جلد9،صفحہ138 )📚

   ✍ صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں: ”عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازہ کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اتار سکتا ہے نہ مونھ دیکھ سکتا ہے، یہ محض غلط ہے صرف نہلانے اور اسکے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔“

 📚(بہارِ شریعت ، جلد1،صفحہ 813)📚

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَ

Friday, August 5, 2022

معززعلمائے اہل سنت سےمودبانہ گزارش

سیاح ایشیاوافریقہ مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی اطال ﷲ عمرہ کا درد دل روح فرسا حالات کے تناظر میں ضرور پڑھیں

معززعلمائے اہل سنت سےمودبانہ گزارش

از:خاکسار محمد قمرالزماں خاں اعظمی مصباحی ،سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن ،لندن

الحمد للہ،اللہ رب العزت نے آقاے کریم رئوف ورحیم ﷺ کے صدقے وطفیل اپنے جن بندوں کی علم کی دولت عطافرمائی ،یقیناوہ بہت خوش نصیب ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے علم اورعلما کی فضیلت جا بجا بیان فرمائی ہے ۔ایک مقام پر فرمایا’’اَلْعُلَمَآءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآءِ‘‘۔(رواہ الجامع الصغير، عن أنس بن مالک) یعنی علماانبیائے کرام کے وارث ہیں ۔

ایک مقام پر علمائے کرام کی شان بیان کرتے ہوئے حضور تاج مدینہ ارواحنا فداہ ﷺ نے علماکے چہروں کو دیکھنا عبادت قرار دیا ہے ۔سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اَلْعِلْمُ حَیَاۃُ الْاِسْلَامِ ،(کنزالعمال)یعنی علم اسلام کی زندگی ہے ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالم کون ہے؟تو قرآن رہنمائی فرماتا ہے :اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُ ا ؕ۔

ترجمہ : اللّٰہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔(کنزالایمان)

اب ہم اس آیت کی روشنی میں اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں کہ ہماری زندگی میں خوف وخشیتِ خدا ہے یا نہیں ؟اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں اپنے احتساب اور اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔

اگرہم اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لبہائے مبارک سے نکلنے والے الفاط بابِ اجابت تک پہنچتے تھے اور ان کی ہر دعا بارگاہ الٰہی میں قبول ہوجاتی تھی ۔ان کے پاس پریشان حال اپنی پریشانی لے کر جاتا تو اس کی پریشانی دور ہوجاتی تھی ۔وہ اگر کسی کے لیے دعافرمادیتے تو اس کی بگڑی بن جاتی ۔وہ کچھ کہہ دیتے تو مولیٰ ان کی زبان کی لاج رکھ لیتاتھا۔وجہ کیا تھی؟
قرآن فرماتا ہے : وَ مَنْ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہٗ مَخْرَجًا ۔(الطلاق : آیت ۲)

ترجمہ : اور جو اللّٰہ سے ڈرے، اللّٰہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا ۔(کنزالایمان)

اور ارشاد فرمایا: وَ مَنْ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا ۔(الطلاق : آیت۴)

ترجمہ :اور جو اللّٰہ سے ڈرے اللّٰہ اس کے کام میں آسانی فرمادے گا ۔(کنزالایمان)

ہماری محفلوں میں بیٹھنے والے ہر شخص میں خوف وخشیتِ الٰہی کے جلوے نظر آنے چاہیے لیکن نظر نہیں آتے ۔افسوس! ہم عیش پسند اور غافل بنتے جارہے ہیں ۔ہماری عوام راہ حق سے بھٹک کراِرتداد کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے،اس پر ہماری توجہ نہیں ہوتی۔ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے اُن کا ہمیں ادراک ہوناچاہیے۔آج جس طرح اُمت مسلمہ میں انحراف وارتداد پیداہورہا ہے اگر ہم نے ان مسائل کا وقت پر ادراک نہیں کیا تو ڈر ہے کہ یہ سیلاب کہیں اُمتِ مسلمہ کو بہا نہ لے جائے۔

پہلے کے مقابل اب علماے کرام کی ذمے داریاں بڑھ چکی ہیں ۔ہمیں غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر اُمتِ مسلمہ کے ایک ایک فرد کو سمجھانے اور راہ حق پر گامزن کرنے کی ضرورت ہے ۔انھیں علم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔اپنی عوام کے مفاد میں کام کرناہوگا۔اپنی عوام کو اللہ رب العزت ،اللہ کے رسول ﷺ اور اللہ کے ولیوں سے قریب کرنا ہوگا۔

اگر ہم ان آبادیوں اور بستیوں کا جائزہ لیں جہاں علمانہیں ہیں ،تو پتہ چلے گا کہ وہاں کے حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔اور بہت سے وہ علاقے جہاں علما موجود ہیں وہاں بھی بیشتر عوام کو صحیح طور پر کلمہ یاد نہیں اور نہ ہی اس کے تقاضوں سے کچھ واقف ہیں ۔وہ آقائے کریم کی سیرت سے ناواقف ہیں ۔انھیں قرآن پڑھنا نہیں آتا۔اس میں جہاں ہماری عوام کا قصور ہے وہیں کہیں نہ کہیں ہم بھی اس سلسلے میں جواب دہ ہوں گے ۔

علماے کرام کی ذمے داری یہ ہے کہ آخرت کی منزل اپنے سامنے رکھیں اوراللہ کی عطاکردہ دولت علم اور میراث نبی کوتقسیم کرنے میں خوب محنت کریں۔

اگر ہم نے عیش وعشرت کی زندگی اپنائی اور مقصد سے غافل رہے،تو عنداللہ وعندالرسول ہم جواب دہ ہوں گے۔اور ہم اپنے رسول کو منھ دکھانے کے بھی قابل نہ رہیں گے۔

ہم نے علم کیوں حاصل کیا ؟اگر حصول علم کا مقصد فروغ علم ،فروغ دین ومذہب اور خدمت خلق نہیں ہے تو پھر اور کیا مقصد ہے ؟جہاں تک روزی روٹی کا مسئلہ ہے توہمیں اس کی کچھ زیادہ فکر کی ضرورت نہیں ہے۔اللہ کریم کا وعدہ ’یٰآیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوْٓا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللہَ یَنۡصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ ‘‘برحق ہے۔اگر ہم اس کے دین کی خدمت اخلاص وللہیت کے ساتھ کرتے رہیں گے تو وہ ہمیں محروم نہیں کرے گا بلکہ ہماری مدد فرمائے گا۔حدیث پاک کے مطابق علماکے کے لیے سمند ر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں اور یہ بھی روایتوں میں ملتا ہے کہ اللہ پاک کسی عالم کو فاقہ کے سبب موت نہیں دے گا۔

اگر ہم اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے تو اہل دنیا اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے ۔ہمیں دنیا کے لیے دین کا کام نہیں کرنا ہے بلکہ اخلاص کے ساتھ اس لیے دین کا کام کرنا ہے کہ ہم بروزقیامت اللہ ورسول کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں ۔

اب چند اور باتیں بطور لائحہ عمل آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔اگر مناسب سمجھیں تو عملی جامہ پہنائیں ۔

(۱)جگہ جگہ مکاتب کھولنے کی فکر کریں جن میں تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے پڑھانے کا نظم کریں ۔

(۲)آپ دین کی بنیادی باتیں مثلا وضو،غسل،نماز وغیرہ سکھانے میں بھی عار نہ کریں ۔

(۳) تضییع اوقات سے بچیں ۔واٹس اپ،فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کااستعمال بقدرے ضرورت کریں۔

(۴) اپنی ساری امیدیں اللہ رب العزت سے وابستہ رکھیں ،عوام سے اپنی امیدیں بالکل وابستہ نہ رکھیں ۔

(۵)اپناظاہر وباطن درست کرنے کی کوشش کریں ۔انسان ظاہر دیکھتا ہے ،اللہ باطن کو دیکھتاہے۔

(۶) اپنے اُن اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کریں جن کی زندگی ہمارے لیے حجت ودلیل ہے۔

(۷)ہرعالم دین، کتاب وسنت سے اپنا رشتہ مستحکم کرے اورنماز میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

(۸)حضور سید العلماء علیہ الرحمہ کے ارشاد کے مطابق علما روزآنہ دوسوصفحات کا مطالعہ کریں ۔

(۹)علماآپس میں بیٹھیں تو علمی مذاکرات کریں ۔

(۱۰)عوام میں بیٹھیں تو ان کو دینی باتیں سکھائیں ۔

(۱۱) بچوں اور بچیوں کی عصری و دینی تعلیم کے انگلش میڈیم اسکولس قائم کریں۔

(۱۲)  اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی لائبریریاں قائم کریں ۔

(۱۳) علماے کرام خطاب برائے خطاب نہیں بلکہ خطاب برائے تعمیر وتبلیغ کا مزاج پیدا کریں ۔

(١٤) جہاں بھی خطاب کے لیے مدعو ہوں وہاں کی عوام کی دینی حالت کا جزئزہ لیں ،اور کچھ دیر قیام فرما کر انھیں مشوروں سے نوازیں یا ایسی جماعت تشکیل دیں جو آپ کے چلے آنے کے بعد بھی دینی کاموں میں مصروف رہے اور پھر اس جماعت کی نگرانی کریں ۔ اور جماعت کے افرادکے اندر اخلاص پیداکریں۔

(۱٥)انھیں حالات کی خطر ناکیوں کا احساس دلائیں اور ان کے اندر احساسِ زیاں پیداکریں ۔عوام تو عوام ہیں ہم جیسے علماکہلانے والوں کے اندر بھی مستقبل کے خطرات اور حا ل کے چیلنجوں کا ادارک نہیں ہے ۔

آج پوری دنیا میں اسلام ایک مظلوم ترین صداقت ہے اور دنیا بھر کی تمام قوتیں قوانینِ اسلام کو مٹانے کے درپے ہیں اور ایک منظم منصوبے کے تحت اسلام کے شعائر کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

مسلم نوجوانوں کو اسلام سے دور کرنے اور کفروارتداد کی طرف مائل کرنے کے لیے غیر مسلم قوتیں اپنے تمام مادی وسائل اختیار کررہی ہیں ۔اسلامی عقائد واعمال ،اسلامی اخلاق،اسلامی اقدارسے نفرت پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش ہورہی ہے ۔

باب عقائد میں عقیدہ توحید ورسالت سے منحرف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور شرکیہ اعمال کی طرف رغبت دلائی جارہی ہے ۔اُمت مسلمہ کو تہذیبوں کے تصادم کا چیلنج بھی درپیش ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جن ملکوں میں مدارس کو ختم کردیا گیا وہاں اسلام مٹ گیا۔ امام بخاری اور بہت سے ائمہ حدیث وفقہ کی سرزمینوں میں صحیح سے کلمہ پڑھنے والے نایاب ہیں ۔وسط ایشیا کی وہ تمام ریاستیں جو اِشتراکیت کی زد میں آئیں، وہاں مدارس کو مٹا کر اسلام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔کچھ اور ملکوں میں اسی طرح کی کوشش ہورہی ہے،اس صورت میں علماے کرام کو تمام مساجد کو جزوقتی درسگاہوں میں تبدیل کرناہوگا۔

مساجد کے تمام ائمہ اپنے گردو پیش کا جائزہ لیں اور کوشش کریں کہ متعلقہ آبادی یا محلے کا کوئی بچہ دینی تعلیم سے محروم نہ رہنے پائےاور سن بلوغ سے پہونچنے سے قبل اس قدر آگاہ ہوجائے کہ وہ در پیش چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔علماوائمہ مساجد کے لیے تدریس وتبلیغ دین اب فرض کفایہ نہیں بلکہ فرض عین ہے ۔

پیشکش۔محمدعمران علی نعمانی رضوی۔ماگورجان۔اتردیناجپور بنگال
📲9773617995📱

Thursday, July 21, 2022

امام المدرسین حضرت علامہ مولانا محمد امام الدین صاحب قبلہ

انتقال پر ملال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علماء کا تعارف (166)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام المدرسین حضرت علامہ مولانا محمد امام الدین صاحب قبلہ
ابن جناب محمد لئیق احمد صاحب قبلہ مرحوم۔
ماگور جان  اتر دیناج پور مغربی بنگال۔
آپ کی ولادت باسعادت باعتبار آدھار کارڈ 25/مئی/1950کو ہوئی۔
آپ کی ابجد خوانی تا مکمل فارسیات کی تعلیم ماگور جان میں قائم ایک بے نامی مکتب میں حضرت جناب منشی باور علی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ گچی نگر کے پاس ہوئی۔
اس کے بعد آپ نے مدرسہ اسلامیہ عارفیہ چنامنا میں حضور استاذالعلما حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نصیر الدین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کے پاس میزان تا شرح جامی کی تعلیم حاصل کی۔
پھر آپ بریلی شریف چلے گئے' اور جامعہ رضویہ منظر اسلام میں افضل العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد افضل حسین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ مونگیری' شیخ التفسیر حضرت علامہ مولانا محمد جہانگیر خان صاحب قبلہ علیہ الرحمہ' محدث جلیل حضرت علامہ مولانا مفتی احسان علی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ ' جامع معقولات و منقولات حضرت علامہ سید عارف صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کے پاس خامسہ تا دورۂ حدیث کی تعلیم حاصل کی۔اور وہیں سے فضیلت کی دستاربندی ہوئی ۔
سند وغیرہ محفوظ نہ ہونے اور حضرت کی یاد داشت کمزور ہوجانے کی وجہ سے تاریخ و  سن فراغت معلوم نہ ہو سکی' 
حضرت علامہ مولانا مفتی حسن منظر قدیری صاحب قبلہ آپ کے درسی زمیل ہیں ' دونوں کی ایک ساتھ فراغت ہوئی ہے۔
دستار بندی کے بعد آپ وطن عزیز آگئے اور مدرسہ انوار العلوم چین پور میں بساط تدریس بچھایا' دو دیے سے زائد عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے' اور ہزاروں تشنگان علوم کو سیراب کیا' 
جلالۃالعلم حضرت علامہ مولانا محمد جلال الدین صاحب قبلہ ' کمال ملت حضرت علامہ مولانا محمد کمال الدین صاحب قبلہ اور حضرت علامہ مولانا مفتی محمد غلام محمد مدنی صاحب قبلہ  اسی درسگاہ فیض کے خوشہ چین رہے ہیں۔
اس کے بعد آپ نے مدرسہ بدرالاسلام بھیروستان کو  اپنا مرکز تدریس بنایا'  اور  تین دہا سے زائد عرصہ تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے' حتی کہ آپ علیل ہوگئے' اور علالت کی وجہ سے چند سال پہلے سبکدوش ہو گئے۔ اس خوان علم سے بھی ہزاروں طالبان علوم نے استفادہ کیا ۔ جن میں سے بعض " حضرت علامہ و مولانا نور عالم صاحب قبلہ چین پور' حضرت مولانا اسرار الحق صاحب چین پور 'حضرت مولانا شریف عالم صاحب سابٹ باڑی' حضرت مولانا سفیر الدین صاحب چین پور ' حضرت مولانا عبد العزیز صاحب ماگور جان ' حضرت مولانا شاکر عالم صاحب ماگور جان' حضرت مولانا قربان علی صاحب بھیروستان' حضرت مولانا نور الحسن صاحب ماگور جان ' حضرت مولانا نور الہدی صاحب ماگور جان ' حضرت مولانا نور عالم صاحب اٹھیاباڑی چین پور ' حضرت مولانا قمر الزمان صاحب اٹھیاباڑی چین پور ' حضرت مولانا نثار عالم صاحب چین پور 'حضرت مولانا ارشاد عالم صاحب ماگور جان ' حضرت مولانا مہتاب الدین صاحب ماگور جان
حضرت مولانا محمد عمران علی صاحب ماگورجان" کے نام معلوم ہو سکے ہیں۔
ابھی آپ صاحب فراش ہوگئے ہیں۔ علیل ہیں' 
آپ کی شادی ماگور جان ہی میں جناب حاجی گوہر علی صاحب قبلہ مرحوم کی صاحب زادی کے ساتھ ہوئی۔ جن سے دو بیٹے حضرت مولانا محمد اسیر الحق صاحب قبلہ' جناب محمد رضوان الرحمن صاحب اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

وصال پر ملال۔۔۔۔
واٹساپ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آج 19/جولائی 2022 بروز منگل آپ کا انتقال پر ملال ہوگیا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون 
رابطہ نمبر خلف اصغر حضرت مولانا اسیر الحق صاحب 
9898719864
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محب العلماء اکیڈمی حیدرآباد
تعارف کنندہ۔۔ ابوالفیضان محمد ذاکر حسین نوری فناءالقادری المصباحی ناظم اعلیٰ جامعہ طیبۃ الرضا چنتل میٹ حیدرآباد
9391321727
22/10/2021

Thursday, June 30, 2022

قربانی کے جانوروں کی عمریں کیا ہونی چاہئیں؟*

*قربانی کے جانوروں کی عمریں کیا ہونی چاہئیں؟*

*الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب*

👈قربانی کاجانور تین میں سے کسی ایک جنس کا ہونا ضروری ہے۔ 1۔ بکری، 2۔ اونٹ، 3۔گائے۔
👈 ہر جنس میں اس کی نوع داخل ہے۔ مذکر، مونث، خصی، غیر خصی سب کی قربانی جائز ہے۔ بھیڑ اور دنبہ بکری کی جنس میں اور بھینس گائے کی جنس میں شامل ہے۔ 🐃کسی وحشی جانور کی قربانی جائز نہیں۔

👈 *جانوروں کی عمریں*
🐪اونٹ پانچ سال کا۔۔۔ 🐄گائے، 🐃بھینس دو سال کی۔۔۔ 🐐بکری، 🐑بھیڑ ایک سال کی۔۔۔ یہ عمر کم از کم حد ہے۔ اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں۔ زیادہ عمر ہو تو بہتر ہے۔ ہاں 🐑دنبہ یا🐏 بھیڑ کا چھ ماہ کا بچہ اگر اتنا موٹا تازہ ہوکہ دیکھنے میں سال بھر کا نظر آئے تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔

📚(درمختار، هداية، : 4494. عالمگيری، : 2975)📚

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم

Saturday, May 28, 2022

حدیث افتراق امت میں فرقۂ ناجیہ بے حساب و کتاب جنت میں جائے گا ؟❣️*

*❣️حدیث افتراق امت میں فرقۂ  ناجیہ بے حساب و کتاب جنت میں جائے گا ؟❣️* 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
معزز علمائے کرام کی بارگاہ میں میرا ایک سوال ہے کہ قیامت تک ٧٢ فرقہ ہوں گے اس میں سے ایک بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہوں گے باقی سب کا کیا معاملہ ہوگا؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی ۔ جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ
*فخرازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*سائل محمد دانش نقشبندی اعظمی*
اــــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
 *وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوہاب* 
حدیث شریف میں ۷۲ نہیں بلکہ ۷۳ فرقوں کا بیان میری نظروں سے گزرا جن میں سے ایک نجات پانے والا ہوگا؛ بے حساب و کتاب جنت میں جانے کا تذکرہ نہیں اور ۷۲ جہنمی ہوں گے جن کی تفصیل و تشریح  درج ذیل ہے۔ 

جیسا کہ صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ امجد علی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سنن ترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی افتراق ھذہ الامۃ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں 
*(ستفترق امتی ثلثا و سبعین فرقۃ کلھم فی النار الا واحدۃواحدۃ)*
"یہ امت تہتر فرقے ہو جائے گی؛ ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی"

صحابہ نے عرض کی۔ 
*(من ھم یا رسول الله ؟)*
"وہ ناجی فرقہ کون ہے یا رسول الله؟ " فرمایا۔ 
*(ما انا علیہ و اصحابی)*
 "وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں " یعنی سنت کے پیرو۔  اھ 

اور  "السنۃ" لابن ابی عاصم کے حوالے سے رقم طراز ہیں 
*(ھم الجماعۃ)* 
" وہ جماعت ہے "
یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جسے سواد اعظم فرمایا اور فرمایا : جو اس سے الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا۔ اسی وجہ سے اس ناجی فرقہ کا نام اہل سنت و جماعت ہوا ان گمراہ فرقوں میں بہت سے پیدا ہوکر ختم ہوگئے بعض ہندوستان میں نہیں۔ اھ 
*( 📕بہار شریعت ج ۱ ح ۱ ص ۱۸۷/۱۸۸ مطبوعہ مکتبہ المدینہ )*
  اور مشکوۃ شریف میں ہے ۔ 
*" ان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین و سبعین ملۃ و تفترق امتی علی ثلث و سبعین ملۃ کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ قالوا من ھی یا رسول الله قال ما انا علیہ و اصحابی رواہ الترمزی و فی روایۃ احمد و ابی داوُد عن معاویہ ثنتان و سبعون فی النار و واحدۃ فی الجنۃ و ھی الجماعۃ۔ "* 
یقینا بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سوائے ایک ملت کے سب دوزخی لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ وہ ایک کون فرقہ ہے فرمایا وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں اسے ترمذی نے روایت کیا اور احمد ابو داؤد میں معاویہ کی روایت سے یہ ہے کہ بہتر دوزخی اور ایک جنتی ہے اور وہ بڑا گروہ ( جماعت المسلمین) ہے
*( 📘مشکوۃ المصابیح صفحہ ۳۰ باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ فصل ثانی  مطبوعہ مجلس البرکات )*

اسی حدیث کی تشریح میں حضرت علامہ مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں ۔ 
اس طرح کہ بنی اسرائیل کے سارے ۷۲ فرقے گمراہ ہوگئے مگر مسلمانوں میں بہتر فرقے گمراہ ہوں گے اور ایک ہدایت پر خیال رہے کہ جیسے بعض بنی اسرائیل نبیوں کے دشمن ہیں ایسے ہی مسلمانوں میں بعض فرقے دشمن سیدالانبیاء ہیں اور جیسے بعض بنی اسرائیل انبیاء کو خدا کا بیٹا مان بیٹھے مسلمانوں میں بھی بعض جاھل فقیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عین خدا مانتے ہیں غرض اس حدیث کا ظہور یوں پوری طرح ہو رہا ہے؛ یعنی میں اور میرے صحابہ ایمان کی کسوٹی پر ہیں جس کا ایمان ان کا سا ہو وہ مومن ماسوائے بےدین۔ رب تعالٰی فرماتا ہے *"فان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اھتدوا "خیال رہے کہ "ما"* سے مراد عقیدے اور اصول اعمال ہیں نہ کہ فروعی افعال یعنی جن کے عقائد صحابہ کے سے ہوں اور ان کے اعمال کی اصل عہد صحابہ میں موجود ہو وہ جنتی ورنہ فروع اعمال آج لاکھوں ایسے ہیں جو زمانہ صحابہ میں نہ تھے ان کے کرنے والے دوزخی نہیں صحابہ کرام حنفی؛ شافعی یا قادری نہ تھے ہم ہیں۔ انہوں نے بخاری مسلم نہیں لکھی تھی مدرسہ اسلامیہ نہ بنائے تھے۔ ہوائی جہاز اور راکٹوں سے جہاد نہ کیے تھے ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں لہذا یہ حدیث وہابیوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ عقائد وہی صحابہ والے ہیں  اور ان سارے اعمال کی اصل وہاں موجود ہے غرضیکہ درخت اسلام عہد نبوی میں لگا عہد صحابہ میں پھلا پھولا قیامت تک پھل آتے رہیں گے کھاتے رہو بشرطیکہ اسی درخت کے پھل ہہوں؛ س میں بتایا گیا کہ جنتی ہونے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ سنت کی پیروی اور جماعت مسلمین کے ساتھ رہنا اسی لئے ہمارے مذہب کا نام اہل سنت والجماعت ہے جماعت سے مراد مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جس میں فقہاء ؛ علماء َصوفیاء اور اولیاء اللہ ہیں الحمدللہ یہ شرف بھی اہل سنت ہی کو حاصل ہے۔ سوا اس فرقہ کے اولیاء اللہ کسی فرقہ میں نہیں ؛ خیال رہے کہ یہ ۷۳ کا عدد اصولی فرقوں کا ہے کہ اصولی فرقہ ایک جنتی اور ۷۲ جہنمی چنانچہ اہل سنت میں حنفی شافعی مالکی حنبلی چشتی قادری نقشبندی سہروردی ایسے ہی اشاعرہ ماتریدیہ سب داخل ہیں کہ عقائد سب کے ایک ہی ہیں اور ان سب کا شمار ایک ہی فرقہ میں ہے۔ ایسے ہی  بہتر ناری فرقوں کا حال ہے کہ ان میں ایک ایک فرقے کے بہت ٹولے ہیں مثلا ایک فرقہ روافض کے بہت ٹولے ہیں بارہ امامئے چھ امامئے تین امامئے ایسے ہی دیگر فرقوں کا حال ہے لہذا حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ اسلامی فرقے کئ سو ہیں

*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
اــــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبــــــــــــــــــــــــــــــہ*
*حضرت مولانا محمد ساجد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالی خادم مدرسہ دار ارقم محمدیہ میرگنج بریلی شریف*
*۲۲ شوال المکرم ۳٤٤١؁ھ بروز منگل*
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــ
*الجواب صحیح والمجیب نجیح :-* 
حضرت مفتی شرف الدین رضوی قادری صاحب قبلہ خادم والافتاء دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیل خانہ ہوڑہ کلکتہ بنگال
اــــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*🔸فخر ازھر گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917542079555
https://wa.me/+917800878771
اــــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منجانب منتظمین فــخــر ازھـــر گــروپ*
اــــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ

Friday, May 27, 2022

*🌹 کیا حضرت عیسی علیہ السلام زمین پر تشریف لانے کے بعد نکاح فرمائیں گے اور ان کی اولاد ہوگی ؟🌹*

*🌹 کیا حضرت عیسی علیہ السلام زمین پر تشریف لانے کے بعد نکاح فرمائیں گے اور ان کی اولاد ہوگی ؟🌹*
ا__(💜)___
*https://t.me/alhalqatulilmia*
ا__(💜)___
*سوال*

*السّلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ*

کیا حضرت سیدنا عیسٰی علیہ الصلّوة والسلام کی شادی مبارک اور اولاد شریف بھی ہوگی تو آپ کی شادی کس خاندان ، کس جگہ ہوگی اور آپ کا نکاح خواں کون ہوگا ؟
براۓ کرم شرعی رہنماٸی فرماٸیں  -

*ساٸل :-*  *عبدُالمصطفٰی ارشدی - پاکستان*
ا__(💜)___
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

*ایک روایت میں ہے کہ قوم شعیب علیہ السلام میں ہوگی اور دوسری روایت میں ہے کہ عرب کے مشہور قبیلہ ازد میں ہوگی ، دو صاحبزادے تولد ہونگے ، ایک کا اسم گرامی محمد اور دوسرے کا نام نامی موسی ہوگا رضی اللہ عنھما*

علامہ بدرالدین عینی حنفی متوفی ۸۵۵ھ فرماتے ہیں

*🖊️" وعن ابن عباس: «يتزوج من قوم شعيب، وهو ختن موسى، عليه الصلاة والسلام، وهم جذام فيولد له فيهم ويقيم تسع عشرة سنة لا يكون أميراً ولا شرطياً ولا ملكاً». وعن يزيد بن أبي حبيب: «يتزوج امرأة من الأزد ليعلم الناس أنه ليس بإله»، وقيل: يتزوج ويولد له ويمكث خمسة وأربعين سنة، ويدفن مع النبي ﷺ، في قبره، وقيل: يدفن في الأرض المقدسة، وهو غريب، وفي حديث عبد الله ابن عمر: یمکث فی الارض سبعاً، ويولد له ولدان: محمد وموسى، "*

*(📕عمدۃالقاری ، کتاب احادیث الانبیاء علیہم السلام ، باب نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام ، رقم الحدیث :۳۴۴۹ ، ۱۶/۵۶ ، مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۱ھ)*
یعنی ، جب حضرت عیسی علیہ السلام زمین پر تشریف لائیں گے تو شادی کریں گے اور اپنی زوجہ کےساتھ انیس سال قیام فرمائیں گے ، حضرت ابو ہریرہ کی روایت میں چالیس سال ہے ، اور کعب کی روایت میں چوبیس سال ، قوم شعیب علیہ السلام کی عورت سے نکاح فرمائیں گے جوکہ حضرت موسی علیہ السلام خسر ہیں ، اولاد بھی ہوگی ، کعب بن ابی حبیب کی روایت میں ہے کہ وہ خوش نصیب عورت قبیلہ ازد سے ہوگی ، شادی اسلئےکہ کرینگے کہ لوگ جان لیں کہ وہ خدا نہیں ہیں ، حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت میں ہے کہ دو بچے ہونگے محمد اور موسی ،

*وھکذا قال العلامۃ یوسف زادہ عبداللہ بن محمد الاماسی الآفندی الحنفی المتوفی۱۱۶۷ھ فی المجلد الخامس عشر من نجاح القاری لصحیح البخاری ، ص۴۲۰ ، دارالکمال المتحدۃ ، الطبعۃالاولی:۱۴۳۸ھ*

*نکاح کس جگہ ہوگا اور کون پڑھائےگا اس کا ہمیں علم نہیں اور نہ یہ جاننا ضروری ہے*
ا__(💜)___
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا__(💜)___
*کتبــــہ؛*
*محمد شکیل اخترقادری برکاتی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلی حضرت صدرصوفہ ہبلی کرناٹک الہند*
*۲۴/شوال المکرم ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۶/مئی ۲۰۲۲ء*
ا__(💜)___
*الجواب صحیح والمجیب نجیح٫ عبدہ محمد عطاء اللہ النعیمی عفی عنہ ٫خادم الحدیث والافتاء بجامعۃ النور٫ جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*
ا__(💜)___
*الجواب صحیح والمجیب نجیح,عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
ا__(💜)___
*الجواب صحيح والمجيب نجيح*
*أبو الضياء محمد فرحان القادري النعيمي*
*دار الإفتاء الضيائية بالجامعة الغوثية الرضوية*
*كراتشي باكستان*
ا__(💜)___
*صح الجواب*
*احوج الناس الی شفاعة سید الانس والجان فقیر مُحَمَّد  قاسم القادری اشرفی نعیمی غفر اللہ لہ والدیہ شیش جراہ ببلدة برلی الشریفہ و  خادم غوثیہ دار الافتا کاشی پر اتراکھنڈ الھند*
ا__(💜)___
*الجواب صحیح*
*محمد شہزاد النعیمی عفی عنہ ، دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
ا__(💜)___
*🖊 دارالافتاء ارشدیہ سبحانیہ گروپ🖊*
*رابطہ؛☎7795812191)*
ا__(💜)____
*🖌المشتــہر :,۔🖌*
*منجانب؛منتظمین دارالافتاء ارشدیہ سبحانیہ گروپ؛دلشاد احمد سدھارتھ نگر یو پی*
ا__(💜)______
1293

Thursday, May 26, 2022

*🌹 متولی کے اوصاف کیاہیں ، کیا فاسق معلن مسجد کا متولی بن سکتاہے ؟🌹*ا__(💜)____

*🌹 متولی کے اوصاف کیاہیں ، کیا فاسق معلن مسجد کا متولی بن سکتاہے ؟🌹*
ا__(💜)____
*https://t.me/alhalqatulilmia*
ا__(💜)____
*سوال*
*السّلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ*
   
 کیا ڈاڑھی شریف منڈانے والے یا خشخشی کرانے والے شخص کو کسی سُنّی مسجدشریف یا مدرسہ کا مُتولی و مُہتمم بنانا شرعاً جاٸز ہے؟
براۓ کرم رہنماٸی فرماٸیں -
ساٸل : محمّدعبدُالمصطفٰی ارشدی - (پاکستان)

ا__(💜)____
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

*مسجد اللہ تبارک وتعالیٰ کا گھر ہے ، فلہذا اس کا متولی و قیم بھی ایسا ہونا چاہئے جو دیانت دار بھی ہو اور باعمل بھی ، ہوشیار و سمجھدار بھی ہو اور وقف کا خیرخواہ بھی ، نہ فاسق ہو نہ لالچی ، نہ بدعقل ہو نہ کھیل تماشوں کا شوقین ، نہ کار وقف سے عاجز ہو نہ بدعقیدہ ، اور نہ متولی بننے کا حریص ہو ،*

چنانچہ امام برہان الدین ابراہیم بن موسی طرابلسی حنفی متوفی ۹۲۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه؛ لأن الولاية مقيدة بشرط النّظر، وليس النّظر تولية الخائن؛ لأنه يخل بالمقصود، وكذا تولية العاجز؛ لأن المقصود لا يحصل به، ويستوي فيها الذكر والأنثى، وكذلك الأعمى والبصير، وكذلك المحدود في قذف إذا تاب؛ لأنه أمين رجل طلب التولية على الوقف، قالوا: لا تعطي له "*

*(📘 الاسعاف فی احکام الاوقاف ، باب الولایۃ علی الوقف ، ص۱۲۹ ، مطبوعۃ:جامعۃالعلوم الاسلامیۃ ، عمان - اردن)*
یعنی، متولی نہیں ہوسکتا مگر امانتدار جو خود قادر ہو یا اپنے نائب کے ذریعہ قادر ہو ، اسلئےکہ ولایت نگہبانی کی شرط کے ساتھ مقید ہے اور خائن کی تولیت میں نگہبانی ہےہی نہیں اسلئے کہ وہ مقصود میں مخل ہوگا ، یونہی عاجز کی تولیت کہ اس سے مقصود حاصل نہیں ہوگا ، اس میں مرد و عورت ، اندھا انکھیارا ، تائب شدہ محدود فی القذف برابر ہیں ، جس آدمی نے وقف کی تولیت طلب کی فقہاء فرماتے ہیں کہ اسے نہ دی جائے ،

اور علامہ زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" قال في فتح القدير الصالح للنظر من لم يسأل الولاية للوقف وليس فيه فسق يعرف قال وصرح بانه مما يخرج به الناظر ما اذاظهر به فسق کشربہ الخمرونحوه "*

*(📕البحر الرائق ، کتاب الوقف ، ۵/۲۴۴ ، مطبوعۃ: شرکۃعلاؤالدین بیروت)*
یعنی،فتح القدیر میں فرمایاکہ وقف کا نگہبان بننے کے قابل وہ ہے جو تولیت نہ مانگے ، اور اس کے اندر اعلانیہ فسق نہ ہو ، اگر فسق ظاہر ہوجائے مثلا شراب پینا وغیرہ تو وہ تولیت سے نکل جائےگا ،

*داڑھی مونڈانے یا خشخشی رکھنے والا شخص بھی فاسق معلن ہے کماھو مصرح فی عدۃ من الکتب الفقھیۃ ، فلہذا وہ بھی متولی یا مہتمم بننے کے لائق نہیں*

چنانچہ امام اہلسنت امام احمدرضاقادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" لائق وہ ہے کہ دیانت کار گزار ہوشیار ہو جس پر در باره حفاظت و خیر خواہی وقف اطمینان کافی ہو ، فاسق نہ ہو جس سے بطمع نفسانی یا بے پروائی یا ناحفاظتی یا انہماک لہو ولعب وقف کو ضرر پہنچانے یا پہنچنے کا اندیشہ ہو بد عقل یا عاجز یا کاہل نہ ہو کہ اپنی حماقت یا نادانی یاکام نہ کر سکنے یا محنت سے بچنے کے باعث وقف کو خراب کرے، فاسق اگر چہ کیسا ہی ہو شیار کار گزار مالدار ہو ہر گز لائق تولیت نہیں کہ جب وہ نافرمانی شرع کی پروا نہیں رکھتا کسی کار دینی میں اس پر کیا اطمینان ہو سکتا ہے، لہذا حکم ہے کہ اگر خود واقف فسق کرے واجب ہے کہ وقف اس کے قبضہ سے نکال لیا جاۓ اور کسی امین متدین کو سپر د کیا جاۓ پھر دوسرا تو دوسرا ہے۔ "*

*(📙فتاوی رضویہ ، کتاب الوقف ، باب المسجد ، ۱۶/۵۵۸ ، رضافاؤنڈیشن لاہور ، طبع: ۱۴۲۰)*

*فلہذا اگر فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہوتو اسے ہرگز متولی و مہتمم نہ بنایا جائے ، اگر بن بیٹھا ہو بشرط استطاعت اسے ہٹا دیاجائے*

ا__(💜)____
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا__(💜)____
*کتبــــہ؛*
*محمد شکیل اخترقادری برکاتی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلی حضرت صدرصوفہ ہبلی کرناٹک الہند*
*۲۲/شوال المکرم ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۴/مئی ۲۰۲۲ء*
ا__(💜)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح٫ عبدہ محمد عطاء اللہ النعیمی عفی عنہ*
ا__(💜)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح,عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ*
ا__(💜)____
*الجواب صحيح والمجيب نجيح*
*أبو الضياء محمد فرحان القادري النعيمي*
ا__(💜)____
*الجواب صحیح*
*محمد شہزاد النعیمی عفی عنہ*
ا__(💜)____
*🖊 دارالافتاء ارشدیہ سبحانیہ گروپ🖊*
*رابطہ؛☎7795812191)*
ا__(💜)____
*🖌المشتــہر :,۔🖌*
*منجانب؛منتظمین دارالافتاء ارشدیہ سبحانیہ گروپ؛دلشاد احمد سدھارتھ نگر یو پی*
ا__(💜)____
1289

Thursday, May 19, 2022

دیوث کسے کہتے ہیں؟ دیوث قابل امامت ہے؟ دیوث کے لیے کیا وعیدیں ہیں؟🌹

*🌹دیوث کسے کہتے ہیں؟ دیوث قابل امامت ہے؟ دیوث کے لیے کیا وعیدیں ہیں؟🌹*
ا__(💚)____
*https://t.me/alhalqatulilmia*
ا__(💚)____
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ 
دیوث کسے کہتے ہیں؟؟
دیوث قابل امامت ہے یا نہیں ؟؟
اگر زید واقعی دیوث ہے تو آخرت کی وعیدیں کیا ہیں؟؟
کرم فرمائیں
ا__(💚)____
*وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ*

*بسم الله الرحمن الرحیم*
*الجواب بعون الملک الوھاب*
  جو شخص اپنے اہل وعیال  اور محرم عورتوں کے بارے میں  دینی حمیت سے خالی ہو  یعنی ان کی بے حیائی عریانی فحاشی کو دیکھے اور خاموش رہے اسے دیوث کہتے ہیں ، 

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: 

 *دیّوث سخت اخبث فاسق ، اور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ۔ اسے امام بنانا حلال نہیں اور اس کے پیچھے  پڑھنی گناہ ،اور پڑھی تو پھیرنا واجب.*

 *(📘فتاوی رضویہ، مترجم ٦/۵۸۳)* 

اور اگر کوئی شخص واقعی دیوث ہے تو اس کے بارے میں حدیث میں ہے 

رسول الله ﷺ فرماتے ہیں:

*🖋️"ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ أَبَدًا: الدَّيُّوثُ مِنَ الرِّجَالِ، وَالرَّجُلَةُ مِنَ النِّسَاءِ، وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ."* 
تین شخص جنت میں کبھی نہ جائیں گے دیوث اور مردانی عورت اور شراب کا عادی.
 
*(📕 مجمع الزوائد بحوالہ المعجم الکبیر کتاب النکاح باب فیمن یرضی لاہلہ بالخبث  دارالکتاب بیروت    ۴/ ۳۲۷)* 
ا__(💚)____
*واللہ    تعالیٰ    اعلم*
ا__(💚)____
*کتبــــہ؛*
*فقیر محمد معصوم رضا نوریؔ عفی عنہ ،* 
*١٦ شوال المکرم ۱۴۴۳ ھجری*
ا__(💚)____

ا__(💚)____
*🖊الحلقةالعلمیہ گروپ🖊*
*رابطہ؛☎8052167976)*
ا__(💚)____
*🖌المشتــہر :,۔🖌*
*منجانب؛منتظمین الحلقةالعلمیہ گروپ؛دلشاد احمد سدھارتھ نگر یو پی*
ا__(💚)_____
1288

Wednesday, May 18, 2022

مکان کا بیعانہ دے کر اسی مکان کو آگے بیچ دینا شرعاً کیساہے

*🌹 مکان کا بیعانہ دے کر اسی مکان کو آگے بیچ دینا شرعاً کیساہے ؟ 🌹*
ا__(💚)____
*https://t.me/alhalqatulilmia*
ا__(💚)____
*السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ*

زید نے بکر سے مکان خریدا. ابھی صرف بیعانہ کی رقم دی گئی ہے۔ مکان قبضہ میں نہیں دیا گیا۔ تو کیا اس مکان کو زید بغیر قبضہ کے آگے عمر کو بیچ سکتا ہے؟
*سائل۔  ڈاکٹر ساحل ملک صاحب ، گجرات*
ا__(💚)____
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

ایجاب و قبول کے ساتھ بیعانہ بھی جب ادا کردیا تو بیع مکمل ہوگئی

چنانچہ امام ابوالحسین احمد قدوری حنفی متوفی۴۲۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وإذا حصل الإيجاب والقبول، لزم البيع "*

*(📘مختصر القدوری ، کتاب البیوع ، ص۱۶۶ ، مؤسسۃالریان بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۶ھ)*
یعنی ، جب ایجاب و قبول پالیا گیا تو بیع لازم ہوگئی ،

 اور خریدنے والا اس مکان کا مالک بن گیا اور مکان کی قیمت خریدنے والے کے ذمہ واجب الاداء ہوگئی ، 

امام عبداللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی۶۸۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وحكمه : ثبوت الملك للمشتري في المبيع وللبائع في الثمن "*

*(📕الاختیار لتعلیل المختار ، کتاب البیوع ، ۲/۶ ، دارالرسالۃ العالمیۃ ، الطبعۃالاولی:۱۴۳۰ھ)*
یعنی ، بیع کا حکم یہ ہےکہ مبیع میں مشتری کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے اور ثمن میں بائع کی ،

اب چونکہ یہ خریدار مالک بن چکاہے فلہذا مکان کو اپنے پاس رکھے یا آگے بیچ دے اس کی مرضی ،

اور چونکہ جائیداد غیرمنقولہ مثلا زمین ،گھر وغیرہ چونکہ ہلاک و برباد ہونے والی چیزیں نہیں ہیں ، اسلئے قبضہ سے قبل بھی اس کی بیع جائز ہے ،

چنانچہ امام عبداللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی۶۸۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ویجوز بیع العقار قبل القبض "*

*(📙المختارللفتوی ، کتاب البیوع ، قبیل فصل فی الاقالۃ ،ص۸۴ ، دارالبیروتی دمشق)*
یعنی،جائیداد کی بیع قبضہ سے پہلے بھی جائزہے ،

اور علامہ زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" (قوله صح بیع العقارقبل قبضه) أى عندأبىحنيفة وأبي يوسف وقال محـمدلايجوز لاطلاق الحديث وهوالنهى عن بيع مالم يقبض وقياسا على المنقول وعلى الاجارة ولهما ان ركن البیع صدر من أهله في محله ولاغررفيه لان الهـلاك في العقارنادر  "*

*(📗البحر الرائق ، کتاب البیوع ، باب المرابحۃ والتولیۃ ، فصل فی بیان التصرف فی المبیع والثمن ، ۶/۱۲۶ ، مطبوعۃ مصر)*
یعنی ، ماتن کاقول : صح بیع العقار قبل القبضۃ : یعنی شیخین کے نزدیک درست ہے ، امام محمد کے نزدیک جائز نہیں حدیث کے اطلاق کی وجہ سے ، اور قبضہ سے پہلے بیع کی ممانعت والی حدیث ہے ، اور منقول و اجارہ پر قیاس کرتے ہوئے ، شیخین کی دلیل یہ ہےکہ رکن بیع اس کے اہل سے اس کی محل میں صادر ہوچکا ، اور اس میں کوئی دھوکہ بھی نہیں ہے ، اسلئے کہ جائیداد غیرمنقولہ میں ہلاکت نادر ہے ، 

اس کی علت بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" (صح بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه) من بائعه لعدم الغرر لندرة هلاك العقار"*

*(📔الدرالمختار ، کتاب البیوع ، باب المرابحۃ والتولیۃ ، فصل فی التصرف فی المبیع والثمن قبل القبض ، ص۴۲۷ ، دارالکتب العلمیۃ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی،جس جائیداد کی ہلاکت کا خوف نہ ہو اسے قبضہ سے پہلے بیچنا جائز ہے ، دھوکہ نہ ہونےکی وجہ سے کیونکہ جائیداد کی ہلاکت نادر ہے ،

خلاصہ یہ کہ بیع کی صورت مذکورہ جائز ہے ، اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ، بشرطیکہ جس سے خریدا ہے اسی کے ہاتھ نہ بیچے

فیصلہ جات شرعی کونسل میں ہے

*" جائداد غیر منقول کی بیع قبل قبضہ غیر بائع کے ہاتھ جائز ہے مگر جس سے مول لی تھی اس کے ہاتھ قبضہ سے پہلے اشیاء غیر منقولہ کی بیچ بھی جائز نہیں بلکہ قبضہ لازم ہے "*

*(📘ص۷۸ ، مطبوعہ: جامعۃالرضا بریلی شریف ، طبع:۱۴۳۶ھ)*
ا__(💚)____
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا__(💚)____
*کتبــــہ؛*
*محمد شکیل اخترقادری برکاتی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلی حضرت صدرصوفہ ہبلی کرناٹک الہند*
*۲۴ رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۶ اپریل ۲۰۲۲ء*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح٫ عبدہ محمد عطاء اللہ النعیمی عفی عنہ ٫خادم الحدیث والافتاء بجامعۃ النور٫ جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح,عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
ا__(💚)____
*الجواب صحيح والمجيب نجيح*

Tuesday, May 17, 2022

کیا حفاظتی امور کے مدنظر سیکیورٹی گارڈ پنج گانہ نماز کی جماعت چھوڑ سکتاہے ؟🌹*ا__(💚)____

*🌹 کیا حفاظتی امور کے مدنظر سیکیورٹی گارڈ پنج گانہ نماز کی جماعت چھوڑ سکتاہے ؟🌹*
ا__(💚)____
*https://t.me/alhalqatulilmia*
ا__(💚)____
*السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ*
یا سیدی حفاظتی امور کے مدنظر سیکورٹی گارڈ کا جماعت کے ساتھ نماز ترک کرنا کیسا؟
جواب عنائت فرما دیجیے
جزاک اللہ خیرا
*سائل ۔ ڈاکٹر ساحل ملک صاحب ، گجرات*
ا__(💚)____
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

*عاقل ، بالغ ، آزاد ، قادر پر نماز پنج گانہ کی جماعت واجب ہے*

چنانچہ امام ابو بکر کاسانی حنفی متوفی ۵۸۷ھ فرماتے ہیں

*🖋️" فالجماعة : إنما تجب على الرجال العاقلين الأحرار القادرين عليها من غير حرج "*

*(📘بدائع الصنائع ، کتاب الصلاۃ ، فصل فیمن تجب علیہ الجماعۃ ، ۱/۶۶۲,۶۶۳ ، مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۴ھ)*
یعنی،جماعت عاقل ، آزاد ، قادر مردوں پر واجب ہے جب کہ حرج نہ ہو ،

*البتہ اگر حرج و عذر شرعی موجود ہو تو واجب نہیں*

چنانچہ امام شمس الدین محمد تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ فرماتے ہیں

*" فلا تجب على مريض ومقعد وزمن ومقطوع ید ورجل من خلاف ومفلوج وشيخ كبيرعاجز وأعمى ولا على من حال بينه و بينها مطر وطين و برد شديد وظلمة كذلك "*

*(📘تنویر الابصار ، کتاب الصلاۃ ، باب الامامۃ ، ص۱۸ ، مطبعۃالترقی مصر ، الطبعۃالاولی)*
یعنی، مریض ، اپاہج ، معذور ، ہاتھ پیر کٹا ، مفلوج ، بہت بوڑھا ، عاجز ، اندھے پر جماعت واجب نہیں اور نہ ہی اس پر واجب ہے جو شدید بارش ، کیچڑ ، سخت سردی اور اندھیرے سے دو چار ہو ،

*خوف جان و مال ، ظالم و قرضخواہ بھی ترک جماعت کے اعذار میں سے ہے ،*

علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وخوف على ماله، أو من غريم أو ظالم "*

*(📙الدرالمختار ، کتاب الصلاۃ ، باب الامامۃ ، ص۷۶ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، اپنے مال کا خوف یا قرض خواہ یا ظالم کا خوف بھی عذر ترک جماعت ہے ،

*حتی کہ کھانا تلف ہونے کا خدشہ بھی اعذار میں سے ہے*

علامہ ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ومنه خوفه على تلف طعام في قدر أو خبز في تنور "*

*(📕ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ ، باب الامامۃ ، ۲/۲۹۳ ، دارعالم الکتب ریاض ، طبعۃخاصۃ:۱۴۲۳ھ)*
یعنی انہی اعذار میں سے ہانڈی یا تنور میں کھانے یا روٹی کے تلف ہونے کا خوف بھی ہے ،

*صرف اپنا ہی نہیں بلکہ دوسرے کے مال کا خوف بھی اعذار میں سے ہے*

علامہ ابن عابدین شامی حنفی  فرماتے ہیں

*🖋️" هل التقييد بماله للاحتراز عن مال غيره؟ والظاهر عدمه : لأن له قطع الصلاة له ولا سيما إن كان أمانة عنده كوديعة أو عارية أو رهن مما يجب عليه حفظه  "*

*(📙ایضا)*
یعنی ، خوف مال صرف خود کے مال کے ساتھ ہی مقید نہیں ہے بلکہ دوسرے کا مال بھی داخل ہے ، کیونکہ اس کیلئے اسے نماز توڑنے تک کی اجازت ہے ، خاص طور پر جبکہ اس کے پاس امانت ہو جیسے ودیعت ، عاریت ، رہن جن کی حفاظت اس پر واجب ہے ،

*سیکیورٹی گارڈ بھی بلاشبہ لوگوں کی جان و مال ، گھر بار وغیرہ کی حفاظت و صیانت کا ذمہ دار ہوتا ہے ، فلہذا اولا تو حتی المقدور حاضری جماعت کی کوشش کرے لیکن اگر کہیں تلف و نقصان کا واقعی اندیشہ ہو وہاں اس کیلئے پنج گانہ جماعت کی حاضری معاف ہوگی ،*
ا__(💚)____
*ھذا ماظھرلی والعلم الحقیقی عندربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا__(💚)____
*کتبــــہ؛*
*محمد شکیل اخترقادری برکاتی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلی حضرت صدرصوفہ ہبلی کرناٹک الہند*
*۲۵ رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۷ اپریل ۲۰۲۲ء*
ا__(❣️)____
*الجواب صحیح*
*مفتی ھاشم صاحب*
ا__(❣️)____
*الجواب صحیح*
*مفتی عطا محمد مشاہدی صاحب*
ا__(❣️)____
*الجواب صحیح*
*مفتی مجاہد رضا مصباحی صاحب ، دارالعلوم نورہ اندور ، ایم پی*
ا__(💚)____
*🖊الحلقةالعلمیہ گروپ🖊*
*رابطہ؛☎7795812191)*
ا__(💚)____
*🖌المشتــہر :,۔🖌*
*منجانب؛منتظمین الحلقةالعلمیہ گروپ؛دلشاد احمد سدھارتھ نگر یو پی*
ا__(💚)____
1286

Monday, May 16, 2022

کیا کسی شخص پر کسی ولی کی سواری آسکتی ہے...؟*❣️

*❣️کیا کسی شخص پر کسی ولی کی سواری آسکتی ہے...؟*❣️

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علمائے کرام کی بارگاہ میں سوال عرض ہے کہ
بزرگان دین کی روح پاک کسی شخص کے جسم میں داخل ہوسکتاہے؟
میں راجستھان کا رہنے والا ہوں
اور یہاں پر ایسا ہوتا ہے۔پرمجھے یقین نہیں ہوتا
جب کہ گھر کے حالات بتاتے ہیں
صرف گھر کے حالات نہیں بلکہ جو انتقال کرگئے ہیں ان کے حالات بتاتے ہیں
کہ فلاں شخص کے لیے جو قرآن پڑھا کر بخشش کیا تھا وہ ان کو نہیں ملا ایسی اور بھی بہت کچھ علماء کی بارگاہ میں عرض ہے اس مسلہ کے بارے میں
مدلل جواب عنایت فرمائیں
*فخرازھرچینل لنک⇩*
https://t.me/fakhreazhar
*سائل محمد سلطان خان جبل پور*
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ*

*الجواب :-* ایسا اعتقاد رکھنا کہ کسی شخص پر کسی ولی یابزرگ کی سواری آتی ہے یہ ناجائز و حرام ہے شرع میں اس کی کوئی اصل نہیں
کسی ولی یا بزرگ کی کسی پر سواری نہیں آتی ہے

بلکہ
خبیث ہمزاد شریر جنات آتے ہیں اور وہی بکواس کرتے ہیں
*📚فتاویٰ فقیہ ملت جلد اول صفحہ ٥٩ پر ماہ محرم الحرام میں کچھ بدعات وخرافات بیان کرتے آگے تحریر ہے:*
" کس  مرد یا عورت پر بابا کی سواری کا آنا یہ باتیں خرافات و بدعات اور سخت ناجائز و حرام ہیں- شریعت میں ان کی کوئی اصل و حقیقت نہیں اور ایسا کرنے والا سخت مستحق عذاب ‌‌نار ہیں-"
*📕اور " فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم صفحہ ١٤٨ " پر ہے:*
" یہ سب مکر و فریب ہے ، کسی پر کوئی بزرگ کسی پر نہیں آتا، اس پر اعتماد کرنا جائز نہیں- ہاں ! خبیث ہمزاد اور جنات آتے ہیں - 
اس سے معلوم ہوا کہ
 یہ سب شیاطین کی کارستانیاں ہوتی ہیں اس سے احتراز لازم ہے

*واللہ تعالیٰ اعلم*
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبـــــہ؛*
*حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جعفر علی صدیقی رضوی فیضی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی کرلوسکرواڑی سانگلی مہاراشٹر*
*۱۳ شوال المکرم ۱۴۴۳ھ بروز اتوار*
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
ابوالاحسان رضوی ارشدی غفرلہ
*✅ الجواب صحیح والمجیب نجیح :-*
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جابر القادری رضوی صاحب قبلہ جمشید پور
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*🔸فیضان غوث وخواجہ گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917800878771
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منتظمین فیضان غوث.وخواجہ گروپ*
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ

مہمان نے احتلام کا احساس ہوتے ہی عضوتناسل کو پکڑلیا، منی نہیں نکلی ، شہوت ختم ہونے پر نکلی ، تو شرعاً کیاحکم ہے

*🌹 مہمان نے احتلام کا احساس ہوتے ہی عضوتناسل کو پکڑلیا، منی نہیں نکلی ، شہوت ختم ہونے پر نکلی ، تو شرعاً کیاحکم ہے ؟🌹*
ا__(💚)____
*https://t.me/alhalqatulilmia*
ا__(💚)____
*السلام علیکم و رحمة اللہ و بركاته*
زید مہمان بن کر گیا۔رات میں احتلام ہونا محسوس ہوا اس نے عضو تناسل کو پکڑ کر رکھا۔شہوت ختم ہونے پر منی نکلی۔کیا اس پر غسل واجب ہوگا۔حلانکہ صاحب خانہ سے اس بات کو چھپانا چاہتا ہے ۔
*سائل ۔ ڈاکٹر ساحل ملک صاحب ، گجرات*
ا__(💚)____
*الجواب بعون الملک الوھاب*
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*

*اس مسئلہ کی اصل یہ ہےکہ طرفین یعنی امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمد بن حسن شیبانی رضی اللّٰہ عنھما کے نزدیک منی کا محض اپنی جگہ سے جدا ہوتے وقت شہوت ہونا وجوب غسل کیلئے کافی ہے ، جبکہ امام ابویوسف رضی اللہ عنہ کے نزدیک عضوتناسل سے باہر نکلتے وقت بھی شہوت شرط ہے ،*

چنانچہ امام برہان الدین ابوالحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی ۵۹۳ ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ثم المعتبر عند أبي حنيفة  ومحمد انفصاله عن مكانه على وجہ الشهوة وعند أبي يوسف  ظهوره أيضا اعتبارا للخروج بالمزايلة "*

*(📘الھدایۃ ، کتاب الطھارۃ ، فصل فی الغسل ، ۱/۱۲۳ ، مطبوعۃ : ادارۃالقرآن کراتشی ، الطبعۃالاولی:۱۴۱۷ھ)*
یعنی، امام اعظم اور امام محمد کے نزدیک منی کا اپنی جگہ سے جدا ہوتے وقت شہوت معتبرہے اور امام ابویوسف کے نزدیک ظہور کے وقت بھی شہوت کا اعتبار ہے خروج کو جدا ہونے پر قیاس کرتے ہوئے ،

*عمومی حالات میں طرفین یعنی امام اعظم اور امام محمد رضی اللّٰہ عنھما کے قول پر فتوی ہے ، اور عندالضرورت امام ابویوسف رضی اللّٰہ عنہ کے قول پر*

چنانچہ امام سراج الدین عمر ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۱۰۰۵ھ فرماتے ہیں

*🖋️" قال في السراج : والفتوى على قول أبي يوسف في الضيف وعلى قولهما في غيره لكن لا بد أن يقيد بما إذا خاف الريبة، كما في «غاية البيان » وغيره زاد في المستصفى أو استحى "*

*(📙النھرالفائق ، کتاب الطھارۃ ، ۱/۶۶ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۲ھ)*
یعنی، مہمان وغیرہ کے حق میں فتوی امام ابویوسف کے قول پر ہے اور دوسروں کے حق میں طرفین کے قول پر ، البتہ مہمان کیلئے تہمت و شک کی قید ہے جیساکہ غایۃالبیان وغیرہ میں ہے اور حیا و شرم بھی جیساکہ مستصفے میں ہے ،

اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں

*🖋️" أنهم أجازوا للمسافر والضيف الذي خاف الريبة أن يأخذ بقول أبي يوسف بعدم وجوب الغسل على المحتلم الذي أمسك ذكره عند ما أحس بالاحتلام إلى أن فترت شهوته ثم أرسله، مع أن قوله هذا خلاف الراجح في المذهب، لكن أجازوا الأخذ به للضرورة "*

*(📕شرح عقود رسم المفتی ، الافتاء والعمل علی الضعیف ، ص۸۵ ، مکتبۃالبشری کراتشی ، الطبعۃالاولی:۱۴۳۰ھ)*
یعنی، فقہائے کرام نے مسافر و مہمان جس کو شک و تہمت کا خوف ہو اسے اجازت دی ہےکہ امام ابویوسف رضی اللّٰہ عنہ کے قول عدم وجوب غسل پر عمل کرے جبکہ احتلام کا احساس ہوتے ہی ذکر کو پکڑلے یہاں تک کہ شہوت ساکن ہوجائے پھر چھوڑے ، باوجودیکہ امام ابویوسف کا یہ قول راجح مذہب کے خلاف ہے ، مگر ضرورت کی وجہ سے فقہاء نے اس پر عمل کو جائز قرار دیا ہے ،

*صورت مسئولہ مذکورہ میں زید کو اجازت ہےکہ امام ابویوسف رحمہ اللّٰہ کے قول پر عمل کرتے ہوئے غسل نہ کرے کہ اس خاص صورت میں اس پر غسل فرض نہیں ہے*
ا__(💚)____
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا__(💚)____
*کتبــــہ؛*
*محمد شکیل اخترقادری برکاتی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلی حضرت صدرصوفہ ہبلی کرناٹک الہند*
*۱۳ شوال المکرم ۱۴۴۳ھ مطابق ۱۵ مئی ۲۰۲۲ء*
*مورخہ:27/08/2021)*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح*
*محمد ھاشم رضا مصباحی غفرلہ*
ا__(💚)____
*🖊الحلقةالعلمیہ گروپ🖊*
*رابطہ؛☎7795812191)*
ا__(💚)____
*🖌المشتــہر :,۔🖌*
*منجانب؛منتظمین الحلقةالعلمیہ گروپ؛دلشاد احمد سدھارتھ نگر یو پی*
ا__(💚)____
1287

Monday, May 2, 2022

کیا بھتیجا اپنی چچی سے نکاح کر سکتا ہے؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
 ایک سوال عرض خدمت ہے کہ کیا بھتیجا اپنی چچی سے نکاح کر سکتا ہے؟
 حوالہ بھی ارشاد فرما دیجئے گا کرم نوازی ہوگی

 سائل محمد اویس رضا خان شاہجہاں پور یو پی انڈیا

  جواب

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ 

 الجواب وباللہ التوفیق

 اگر چچا کا انتقال ہوجائے یا چچا اپنی بیوی کو طلاق دےدے تو عدت گزارنے کے بعد جس طرح دوسرے لوگ اس عورت سے نکاح کر سکتے ہیں اسی طرح بھتیجا بھی اس چچی سے نکاح کرسکتا ہے. کیوں کہ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے ۔ کہ لڑکی محرمات میں سے نہ ہو۔ اور چچی بھتیجے کے لئے محرمات میں سے نہیں ہے۔ 

 اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے

  حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ وَ رَبَآىٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ٘-فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ٘-وَ حَلَآىٕلُ اَبْنَآىٕكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْۙ-وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ 

 (سورۃ النساء الآیۃ ٢٣) 

ترجمۂ کنز الایمان حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں اور عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں ان بیویوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں میں حرج نہیں اور تمہاری نسلی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنیں اکٹھی کرنا مگر جو ہو گزرا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے

 (سورۃ النساء الآیۃ ٢٣)

 محرمات کےذکر کے بعد ارشاد فرماتا ہے وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ یعنی جو بھی ان کے علاوہ ہیں وہ تمہارے لئےحلال ہیں

 چچی ان کے علاوہ میں سے ہے لہٰذا وہ بھی حلال ہوگی۔
اور ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں حضور اعلی حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں۔ حرام عورتوں میں چچی کوشمار نہ فرمایا نہ شرح میں اس کی تحریم آئی تو ضرور وہ حلال عورتوں میں ہے 

 (فتاوی رضویہ ج ٥ ص ٢٣٠) 

 خلاصہ ۔ مذکورہ بالا عبارات سے معلوم ہوا۔ کہ چچی بھتیجے کے لئے محرمات میں سے نہیں لہذا اس سے نکاح درست ہوگا۔

  واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

فقیر محمد دانش شمسی غفر لہ

محمدی لکھیم پور کھیری

Wednesday, February 23, 2022

حضرت ہمارے گاؤں میں ایسا سوچتے ہیں کہ اگر سانپ کو مارکر چھوڑ دیا جائے تو وہ اس انسان سے بدلہ لیتے ہیں وغیرہ۔۔۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت ہمارے گاؤں میں ایسا سوچتے ہیں کہ اگر سانپ کو مارکر چھوڑ دیا جائے تو وہ اس انسان سے بدلہ لیتے ہیں وغیرہ۔۔۔ 

یہ بات درست ہے یا نہیں؟

💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫

وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ 

حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :
*مَنْ رَأَیَ حَیَّۃً فَلَمْ یَقْتُلْہَا مَخَافَۃَ طَلْبِہَا فَلَیْسَ مِنَّا*
یعنی جوسانپ دیکھے پھربدلہ کے خوف سے اسے نہ مارے وہ ہم سے نہیں۔
*(المعجم الکبیر، ۷/۷۸، حدیث:۶۴۲۵ )*

🖊️ *مُفَسِّرِ شَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔!!!*
یعنی ہماری سنت کا تارِک ہے۔پہلے جہلائِ عرب کہتے تھے اور جہلائِ ہند اب تک کہتے ہیں کہ سانپ کو مارنے والے سے اس کی ناگنی بدلہ لیتی ہے اس لئے سانپ کو مت مارو۔ اس فرمان عالی میں اسی خیال کی تردید ہے بھلا سانپنی یعنی ناگن کو کیا خبر کہ کس نے مارا ہے؟ لوگوں میں مشہور ہے کہ مارے ہوئے سانپ کی آنکھوں میں مارنے والے کا فوٹو آجاتا ہے اس فوٹو سے ناگن، قاتل کو پہچان لیتی ہے اس لئے سانپ کو مارکر اس کا سر جلا دیا جاتا ہے تاکہ آنکھوں میں فوٹو نہ رہے مگر یہ بھی غلط ہے اس کا سر جلادینا اسے مار ڈالنے کے لئے ہے، وہ لاٹھی کھاکر بیہوش ہوجاتا ہے لوگ مردہ سمجھ کرچھوڑ دیتے ہیں،وہ کچھ عرصہ بعد پھر ہوش میں آکر چلا جاتا ہے آگ میں جلانا اس لیے ہے تاکہ واقعی مر جائے۔خیال رہے کہ جب تک سانپ اُلٹا نہ پڑ جائے کہ پیٹ اوپر آجائے تب تک وہ زندہ ہے۔

*(مراٰۃ المناجیح ،حدیث ۱۰۳۰)*

*واللہ تعالی اعلم بالصواب*

*✍🏻 س ف ق ؛ ۷۴۰۸۲۵۱۶۲۱*

Sunday, February 6, 2022

نیوتا کی دو صورتیں ہیں ایک صورت میں یہ قرض ہے، اور ایک صورت میں یہ تحفہ ہے،

نیوتا  کی دو صورتیں ہیں ایک صورت میں یہ قرض ہے، اور ایک صورت میں یہ تحفہ ہے،

تو جن برادریوں میں " نیوتا " کو باقاعدہ لکھا جاتا ہے کہ کس نے کتنا دیا، اور پھر دینے والوں کی تقریب میں اتنا ہی واپس کیا جاتا ہے، واپسی نہ ہونے پر مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہاں یہ قرض شمار ہے،

لھذا واپسی میں کم یا زیادہ نہیں کر سکتے، اصل سے زیادہ دیں گے تو یہ زیادتی سود شمار ہوگی، جوکہ ناجائز و حرام ہے،،

اور جن برادریوں میں ایسا کوئی برادری کا قانون نہیں ہے، غیر برادری کے لوگ دوستی ، تعلقات ، یا عقیدت کی بنیاد پر شادی میں کچھ دے دیتے ہیں تو ہدیہ ہے،اور حدیث پاک میں ہے، کہ ایک دوسرے کو ہدیہ دو محبت بڑھے گی،، 

*((📙👈وقار الفتاوی، جلد سوم، صفحہ 116))* 

🖋️اور سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں کہ اب جو "نیوتا" دیا جاتا ہے وہ قرض ہے اس کا ادا کرنا لازم ہے اگر رہ گیا تو مطالبہ رہے گا اور بے اس کے معاف کئے معاف نہ ہوگالیکن اگر داعی دینے والوں سے پہلے صاف صاف کہہ دے کہ جو صاحب بطور امداد عنایت فرمائیں تو کوئی مضائقہ نہیں مجھ سے ممکن ہوا تو ان کی تقریب میں مدد کروں گا، لیکن میں قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو دے گا وہ قرض نہیں، ہدیہ ہے،، جس کا بدلہ ہوگیا تو فبہا، ورنہ مطالبہ نہیں،،

*((📒👈فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 586 رضا فاؤنڈیشن لاہور))*