Wednesday, May 18, 2022

مکان کا بیعانہ دے کر اسی مکان کو آگے بیچ دینا شرعاً کیساہے

*🌹 مکان کا بیعانہ دے کر اسی مکان کو آگے بیچ دینا شرعاً کیساہے ؟ 🌹*
ا__(💚)____
*https://t.me/alhalqatulilmia*
ا__(💚)____
*السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ*

زید نے بکر سے مکان خریدا. ابھی صرف بیعانہ کی رقم دی گئی ہے۔ مکان قبضہ میں نہیں دیا گیا۔ تو کیا اس مکان کو زید بغیر قبضہ کے آگے عمر کو بیچ سکتا ہے؟
*سائل۔  ڈاکٹر ساحل ملک صاحب ، گجرات*
ا__(💚)____
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

ایجاب و قبول کے ساتھ بیعانہ بھی جب ادا کردیا تو بیع مکمل ہوگئی

چنانچہ امام ابوالحسین احمد قدوری حنفی متوفی۴۲۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وإذا حصل الإيجاب والقبول، لزم البيع "*

*(📘مختصر القدوری ، کتاب البیوع ، ص۱۶۶ ، مؤسسۃالریان بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۶ھ)*
یعنی ، جب ایجاب و قبول پالیا گیا تو بیع لازم ہوگئی ،

 اور خریدنے والا اس مکان کا مالک بن گیا اور مکان کی قیمت خریدنے والے کے ذمہ واجب الاداء ہوگئی ، 

امام عبداللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی۶۸۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وحكمه : ثبوت الملك للمشتري في المبيع وللبائع في الثمن "*

*(📕الاختیار لتعلیل المختار ، کتاب البیوع ، ۲/۶ ، دارالرسالۃ العالمیۃ ، الطبعۃالاولی:۱۴۳۰ھ)*
یعنی ، بیع کا حکم یہ ہےکہ مبیع میں مشتری کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے اور ثمن میں بائع کی ،

اب چونکہ یہ خریدار مالک بن چکاہے فلہذا مکان کو اپنے پاس رکھے یا آگے بیچ دے اس کی مرضی ،

اور چونکہ جائیداد غیرمنقولہ مثلا زمین ،گھر وغیرہ چونکہ ہلاک و برباد ہونے والی چیزیں نہیں ہیں ، اسلئے قبضہ سے قبل بھی اس کی بیع جائز ہے ،

چنانچہ امام عبداللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی۶۸۳ھ فرماتے ہیں

*🖋️" ویجوز بیع العقار قبل القبض "*

*(📙المختارللفتوی ، کتاب البیوع ، قبیل فصل فی الاقالۃ ،ص۸۴ ، دارالبیروتی دمشق)*
یعنی،جائیداد کی بیع قبضہ سے پہلے بھی جائزہے ،

اور علامہ زین ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۹۷۰ھ فرماتے ہیں

*🖋️" (قوله صح بیع العقارقبل قبضه) أى عندأبىحنيفة وأبي يوسف وقال محـمدلايجوز لاطلاق الحديث وهوالنهى عن بيع مالم يقبض وقياسا على المنقول وعلى الاجارة ولهما ان ركن البیع صدر من أهله في محله ولاغررفيه لان الهـلاك في العقارنادر  "*

*(📗البحر الرائق ، کتاب البیوع ، باب المرابحۃ والتولیۃ ، فصل فی بیان التصرف فی المبیع والثمن ، ۶/۱۲۶ ، مطبوعۃ مصر)*
یعنی ، ماتن کاقول : صح بیع العقار قبل القبضۃ : یعنی شیخین کے نزدیک درست ہے ، امام محمد کے نزدیک جائز نہیں حدیث کے اطلاق کی وجہ سے ، اور قبضہ سے پہلے بیع کی ممانعت والی حدیث ہے ، اور منقول و اجارہ پر قیاس کرتے ہوئے ، شیخین کی دلیل یہ ہےکہ رکن بیع اس کے اہل سے اس کی محل میں صادر ہوچکا ، اور اس میں کوئی دھوکہ بھی نہیں ہے ، اسلئے کہ جائیداد غیرمنقولہ میں ہلاکت نادر ہے ، 

اس کی علت بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں

*🖋️" (صح بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه) من بائعه لعدم الغرر لندرة هلاك العقار"*

*(📔الدرالمختار ، کتاب البیوع ، باب المرابحۃ والتولیۃ ، فصل فی التصرف فی المبیع والثمن قبل القبض ، ص۴۲۷ ، دارالکتب العلمیۃ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی،جس جائیداد کی ہلاکت کا خوف نہ ہو اسے قبضہ سے پہلے بیچنا جائز ہے ، دھوکہ نہ ہونےکی وجہ سے کیونکہ جائیداد کی ہلاکت نادر ہے ،

خلاصہ یہ کہ بیع کی صورت مذکورہ جائز ہے ، اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ، بشرطیکہ جس سے خریدا ہے اسی کے ہاتھ نہ بیچے

فیصلہ جات شرعی کونسل میں ہے

*" جائداد غیر منقول کی بیع قبل قبضہ غیر بائع کے ہاتھ جائز ہے مگر جس سے مول لی تھی اس کے ہاتھ قبضہ سے پہلے اشیاء غیر منقولہ کی بیچ بھی جائز نہیں بلکہ قبضہ لازم ہے "*

*(📘ص۷۸ ، مطبوعہ: جامعۃالرضا بریلی شریف ، طبع:۱۴۳۶ھ)*
ا__(💚)____
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا__(💚)____
*کتبــــہ؛*
*محمد شکیل اخترقادری برکاتی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلی حضرت صدرصوفہ ہبلی کرناٹک الہند*
*۲۴ رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ مطابق ۲۶ اپریل ۲۰۲۲ء*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح٫ عبدہ محمد عطاء اللہ النعیمی عفی عنہ ٫خادم الحدیث والافتاء بجامعۃ النور٫ جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح والمجیب نجیح,عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
ا__(💚)____
*الجواب صحيح والمجيب نجيح*

No comments:

Post a Comment