*🌹 مہمان نے احتلام کا احساس ہوتے ہی عضوتناسل کو پکڑلیا، منی نہیں نکلی ، شہوت ختم ہونے پر نکلی ، تو شرعاً کیاحکم ہے ؟🌹*
ا__(💚)____
*https://t.me/alhalqatulilmia*
ا__(💚)____
*السلام علیکم و رحمة اللہ و بركاته*
زید مہمان بن کر گیا۔رات میں احتلام ہونا محسوس ہوا اس نے عضو تناسل کو پکڑ کر رکھا۔شہوت ختم ہونے پر منی نکلی۔کیا اس پر غسل واجب ہوگا۔حلانکہ صاحب خانہ سے اس بات کو چھپانا چاہتا ہے ۔
*سائل ۔ ڈاکٹر ساحل ملک صاحب ، گجرات*
ا__(💚)____
*الجواب بعون الملک الوھاب*
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*اس مسئلہ کی اصل یہ ہےکہ طرفین یعنی امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمد بن حسن شیبانی رضی اللّٰہ عنھما کے نزدیک منی کا محض اپنی جگہ سے جدا ہوتے وقت شہوت ہونا وجوب غسل کیلئے کافی ہے ، جبکہ امام ابویوسف رضی اللہ عنہ کے نزدیک عضوتناسل سے باہر نکلتے وقت بھی شہوت شرط ہے ،*
چنانچہ امام برہان الدین ابوالحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی ۵۹۳ ھ فرماتے ہیں
*🖋️" ثم المعتبر عند أبي حنيفة ومحمد انفصاله عن مكانه على وجہ الشهوة وعند أبي يوسف ظهوره أيضا اعتبارا للخروج بالمزايلة "*
*(📘الھدایۃ ، کتاب الطھارۃ ، فصل فی الغسل ، ۱/۱۲۳ ، مطبوعۃ : ادارۃالقرآن کراتشی ، الطبعۃالاولی:۱۴۱۷ھ)*
یعنی، امام اعظم اور امام محمد کے نزدیک منی کا اپنی جگہ سے جدا ہوتے وقت شہوت معتبرہے اور امام ابویوسف کے نزدیک ظہور کے وقت بھی شہوت کا اعتبار ہے خروج کو جدا ہونے پر قیاس کرتے ہوئے ،
*عمومی حالات میں طرفین یعنی امام اعظم اور امام محمد رضی اللّٰہ عنھما کے قول پر فتوی ہے ، اور عندالضرورت امام ابویوسف رضی اللّٰہ عنہ کے قول پر*
چنانچہ امام سراج الدین عمر ابن نجیم مصری حنفی متوفی ۱۰۰۵ھ فرماتے ہیں
*🖋️" قال في السراج : والفتوى على قول أبي يوسف في الضيف وعلى قولهما في غيره لكن لا بد أن يقيد بما إذا خاف الريبة، كما في «غاية البيان » وغيره زاد في المستصفى أو استحى "*
*(📙النھرالفائق ، کتاب الطھارۃ ، ۱/۶۶ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۲ھ)*
یعنی، مہمان وغیرہ کے حق میں فتوی امام ابویوسف کے قول پر ہے اور دوسروں کے حق میں طرفین کے قول پر ، البتہ مہمان کیلئے تہمت و شک کی قید ہے جیساکہ غایۃالبیان وغیرہ میں ہے اور حیا و شرم بھی جیساکہ مستصفے میں ہے ،
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں
*🖋️" أنهم أجازوا للمسافر والضيف الذي خاف الريبة أن يأخذ بقول أبي يوسف بعدم وجوب الغسل على المحتلم الذي أمسك ذكره عند ما أحس بالاحتلام إلى أن فترت شهوته ثم أرسله، مع أن قوله هذا خلاف الراجح في المذهب، لكن أجازوا الأخذ به للضرورة "*
*(📕شرح عقود رسم المفتی ، الافتاء والعمل علی الضعیف ، ص۸۵ ، مکتبۃالبشری کراتشی ، الطبعۃالاولی:۱۴۳۰ھ)*
یعنی، فقہائے کرام نے مسافر و مہمان جس کو شک و تہمت کا خوف ہو اسے اجازت دی ہےکہ امام ابویوسف رضی اللّٰہ عنہ کے قول عدم وجوب غسل پر عمل کرے جبکہ احتلام کا احساس ہوتے ہی ذکر کو پکڑلے یہاں تک کہ شہوت ساکن ہوجائے پھر چھوڑے ، باوجودیکہ امام ابویوسف کا یہ قول راجح مذہب کے خلاف ہے ، مگر ضرورت کی وجہ سے فقہاء نے اس پر عمل کو جائز قرار دیا ہے ،
*صورت مسئولہ مذکورہ میں زید کو اجازت ہےکہ امام ابویوسف رحمہ اللّٰہ کے قول پر عمل کرتے ہوئے غسل نہ کرے کہ اس خاص صورت میں اس پر غسل فرض نہیں ہے*
ا__(💚)____
*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا__(💚)____
*کتبــــہ؛*
*محمد شکیل اخترقادری برکاتی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلی حضرت صدرصوفہ ہبلی کرناٹک الہند*
*۱۳ شوال المکرم ۱۴۴۳ھ مطابق ۱۵ مئی ۲۰۲۲ء*
*مورخہ:27/08/2021)*
ا__(💚)____
*الجواب صحیح*
*محمد ھاشم رضا مصباحی غفرلہ*
ا__(💚)____
*🖊الحلقةالعلمیہ گروپ🖊*
*رابطہ؛☎7795812191)*
ا__(💚)____
*🖌المشتــہر :,۔🖌*
*منجانب؛منتظمین الحلقةالعلمیہ گروپ؛دلشاد احمد سدھارتھ نگر یو پی*
ا__(💚)____
1287
No comments:
Post a Comment