Tuesday, August 30, 2022

ماہ صفر میں شادی بیاہ اور صفر کے آخری بدھ کی حقیت ]

*صفر کا مہینہ منحوس یا مسعود۔۔۔۔۔؟؟؟*

[ ماہ صفر میں شادی بیاہ اور صفر کے آخری بدھ کی حقیت ]

    صفر المظفر سنہ ہجری کا دوسرا بابرکت مہینہ ہے۔ محقق علی الاطلاق مولوی عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، "ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے: عرب کے نزدیک "صفر" پیٹ کے اندر کے سانپ کے ہیں، جو انسان کو بھوک کی حالت میں ڈستا رہتا ہے ۔
   اس ماہ کے تعلق سے پھیلی ہوئی منحوس روایات و توہمات آج کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ اس کا تعلق زمانہ جاہلیت ہی سے ہے۔ دورجاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور صفر میں شادی بیاہ ،لین دین اور کسی بھی طرح کا مہتم بالشان کام کرنے سے گریز کرتے تھے۔ امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ مشارق الانوار میں لکھتے ہیں, “لوگ ماہ صفر کو بڑھا کر ماہ محرم کو بھی اس میں شامل کرلیتے تھے“۔

یہ تو بنی نوع آدم پر اسلام کا احسان عظیم ہے کہ بے شمار خرافات و توہمات کی بیخ کنی کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام نے اس ماہ کے تعلق سے پھیلی کئی بے سرو پا باتوں کا قلع قمع کیا اور اس منحوس سمجھے جانے والے صفر کو “مظفر“ کا حسین ترین لبادہ پہنادیا۔

کتنی افسوس کی بات ہے!  آج بھی کچھ حلقوں میں اس مہینہ کو بالخصوص اس کے آخری بدھ کو منحوس سمجھا جاتاہے۔ خطبات الناصحین نامی کتاب میں ایک لمبی من گڑھت حدیث مرقوم ہے۔ جس کا آخری حصہ ہے کہ “حضرت جبرئیل امین نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ حضور ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اللہ تعالی نےتمام بلائیں دس حصوں میں تقسیم کی ہے ان میں سے نو حصے صرف ماہ صفر میں نازل ہوتی ہیں“ (ص، 547) اسی طرح یہ قول بھی حضرت شیخ فرید الدین عطار علیہ الرحمہ کی جانب منسوب کی جاتی ہے کہ ہر سال دو لاکھ اسی ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں اور صرف ماہ صفر میں تین لاکھ اسی ہزار بلائیں “ (ایضا) لطف کی بات یہ ہے کہ مرزا غالب کے دور میں صفر کی نحوست اتنی مشہور تھی کہ غالب نے صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ) کے استعارے میں ایک مکمل کلام ہی لکھ ڈالا ہے۔ پہلا شعر ہے، ؎

ہے چہار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کےمے مشک و بو کی ناند

    ماضی قریب میں حضور بحر العلوم علامہ مفتی عبد المنان اعظمی صاحب علیہ الرحمہ کے پاس ایک استفتا آیا، جس میں سائل نے پوچھا تھا، ”کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین، صفر کے آخری چہار شنبہ کی کیا حقیقت ہے؟ کئی جگہ لوگ بڑے اہتمام سے وضو کرتے ہیں،پرانے برتنوں کو توڑدیتے ہیں ،نئے برتنوں میں کھانا پکا کر حضور اقدس علیہ الصلٰوة والسلام کو نیاز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی دن حضور کو صحت حاصل ہوئی تھی، اور کہتے ہیں کہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اقدس کو مرض وصال شروع ہوا تھا“. (فتاوی بحر العلوم 5، ص، 266)
اس طرح کی تمام روایات موضوع ،من گھڑت، خودساختہ اور نوپیدہ ہیں جن کو حقیقت سے دور کا بھی رشتہ نہیں۔ مولانا تطہیر احمد رضوی بریلوی صاحب فتاوی رضویہ شریف کے حوالے سے لکھتے ہیں، ”بعض جگہ کچھ لوگ اس دن (مذکورہ بالا) کو منحوس خیال کرکے برتنوں وغیرہ کو توڑتے ہیں یہ بھی فضول خرچی اور گناہ ہے۔ صفر کے مہینے کے آخری بدھ کی اسلام میں کوئی خصوصیت نہیں“۔ (غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح )

*چند احادیث گوش گزار کریں!*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تعدّی اور صَفَر کی کوئی حقیقت نہیں “۔ (بخاری ، 5717/مسلم، 5919) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ شگون، تکلیف، ایذا اور چھوت کسی پر اثر انداز نہیں ہوتی نیز کوئی مہینہ کبھی ساٹھ دن کا نہیں ہوتا۔ (ما ثَبَتَ بالسنّة بحواله طبرانی) اس ماہ مبارک کے تعلق سے پھیلی واہمات کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بظاہرصفر کے مہینہ میں کوئی خاص اسلامی تہوار نہیں ہے۔
لیکن اگر تھوڑا غور کیا جائے تو ماہ صفر ایک حیثیت سے دیگر کئی مہینوں سے ممتاز نظر آتا ہے۔ سال کے گیارہ مہینوں میں جتنے بزرگان دین کےاعراس ہوتے ہیں، کم و بیش اتنے ہی اعراس تنہا ماہ صفر میں آتے ہیں۔ اور صحیح حدیث میں آیا ہے ”عندَ ذكرِ الصالِحينَ تنزّل الرّحمة“ یعنی صالحین کے ذکر کی جگہ / وقت خدا کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان مردان خدا کے اعراس کے وقت ان کا ذکر خیر ہی ہوتاہے. (فی زماننا جو برائیاں بعض مشائخ کے اعراس میں رائج ہوگئی ہیں راقم ان سے بیزار ہے) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے فرماتے ہیں، ”اعراس سے ارواح اولیاء سے عشق ومحبت پیدا ہوتا ہے، اسی سے فنا فی الشیخ کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے ، اسی راز کے تحت اعراس مشائخ کی حفاظت کی جاتی ہے اور انکے مزارت کی زیارت پر مداومت اور ان کے لیے فاتحہ خوانی ہوتی ہے“ ( تحفئہ محمدیہ، ص، 24) شاہ اسماعیل دہلوی قتیل نے بھی اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھا ہے ، “پس امور مروجہ یعنی اموات کے فاتحوں، عرسوں اور نذر و نیاز کی خوبی میں شک و شبہ نہیں“. (صراط مستقیم، 76 )
آئیے اس ماہ میں ہونے والے اعراس پر سر سری نظر ڈالتے ہیں۔
پہلی تاریخ کو مارہرہ مقدسہ میں عرس قاسمی شریعت مطہرہ کے دائرہ میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے نیز عرس وارث پاک،
دوسری تاریخ کو محدث پیلی بھیتی، تین کو حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی، چار کو قطب الدین جونپوری، چھ کو شارح بخاری مفتی شریف الحق صاحب امجدی کے اعراس ہیں۔ رضوان اللہ تعالی علیھم۔
اسی طرح ۷/ کو شیخ بہاء الدین ذکریا ملتانی، 
۹/ کو ,حضرت امام موسی کاظم، ۱۱/ کو مفسر قرآن علامہ ابراہیم رضا خان بریلوی ، ۱۳ /کو حضرت امام نسأی، ۱۴/ کو حضرت مالک بن دینار، ۱۵/ کو سید الطائفہ حضرت بایزید بسطامی، ۱۶/ عاشق رسول سید احمد کبیر رفاعی / رئیس القلم حضرت علامہ ارشدالقادری ، ۱۸/کو سلطان المشائخ داتا گنج بخش ہجویری  لاہوری، ۲۲/ کو شاہ مینا لکھنوی، ۲۳/ صفر کو حضرت امام باقر، ۲۴/کو علامہ شمس الدین سیالوی، ۲۵/ کو مجدد اعظم اعلی حضرت شاہ امام احمد رضا خان بریلوی، ۲۶/کو علامہ عینی، ۲۸/کو حضرت امام حسن ابن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی شہادت) ۲۹/ کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی، اور ۳۰/ صفر المظفر کو امام حاکم نیشاپوری وصال فرمائے۔ (رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین)
جن میں سے اکثر  کے دربار میں ان کے اعراس کے وقت ارادت مندوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اور ان کے اعراس ان کے محبین کے لیے عید جیسے ہوتے ہیں۔
گویا ان بزرگان دین کی اس مہینہ میں وفات نے اس منحوس (بزعم بعضے) ماہ کو مسعود بنادیا ہے۔  ؎
بجھی شفق تو ستاروں نے ضیاء پائی
کسی کی موت کسی کی حیات بنتی ہے


از: (مفتی) *انصار احمد مصباحی،*
دار العلوم رضاے مصطفیٰ، اورنگ آباد، مہاراشٹر۔ 9860664476

No comments:

Post a Comment