*🌹زنا اگر ثابت ہوجائے تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے🌹*
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک امام صاحب ہے جو علاج کرتے ہیں علاج کے ذریعے ایک لڑکی سے زنا کرتے ہیں ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا کیسا اور جو لوگ یہ بات جانتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہےاور جو نماز پڑھی گئی ہے اس کے بارے میں کیا ہے برائے کرم جواب حوالے کے ساتھ عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
*🔸سائل عبداللہ 🔸*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*📝الجواب بعون الملک الوھاب*
*امام پر اگر صرف زنا کی تہمت ہے مگر ثابت نہیں تو اس پر تہمت لگانے والے سخت گہنگار حق العبد میں گرفتار اور مستحق عذاب نار ہیں ان پر توبہ واستغفار اور امام مذکور سے معافی طلب کرنا لازم ہے اگر حکمومت اسلامیہ ہوتی تو زنا کی تہمت لگانے والے اگر چار گواہوں سے زنا ثابت نہ کر پاتے تو اسی ۸۰ کوڑے مارے جاتے جیساکہ خداے تعالی کا ارشاد ہے*
والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعة شھداء فاجلدوھم ثمنین جلدہ
(📖پ ۱۸ سورہ نور آیت ۴)
*📜اور امام مذکور کا زنا کرنا یا اس کا کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں رہنا اگر ثابت ہو اور اس نے توبہ کرلی تو ان دونوں صورتوں میں اس سے بیزار رہنے والے غلطی پر ہیں ان کی اور ان سب کی نماز اس کے پیچھے ہوجاے گی بشرطیکہ اور کوئی مانع امامت نہ ہو*
🏷اعلی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی عنہ ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل توبہ قبول فرماتا ہے
ھو الذی یقبل التوبة من عبادہ
اور سچی توبہ کے بعد گناہ بلکل باقی نہیں رہتے حدیث شریف میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
♦التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ
گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ کے مثل ہے توبہ کے بعد اس کی امامت میں اصلا حرج نہیں بعد توبہ اس پر گناہ کا اعتراض جائز نہیں حدیث میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
*"" "" عیر اخاہ بذنب لم یمت حتی یعملہ وفی روایة بذنب تاب منہ وبہ فسر ابن منیع"“"*
🗒جو کسی اپنے بھائی کو ایسے گناہ سے عیب لگاے جس سے توبہ کرچکا ہے تو یہ عیب لگانے والا نہ مرے گا جب تک خود اس گناہ میں مبتلا نہ ہوجائے
رواہ الترمذی وحسنہ عن معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ
*(📓فتاوی رضویہ جلد سوم ص225)*
*🗞اور اگر امام نے جرم ثابت ہونے کے بعد اگر توبہ نہیں کی ہے تو جو لوگ یہ جانتے ہوے اس کے پیچھے جتنی نمازیں پڑھے ہوں سب دوبارہ پڑھیں اور توبہ کریں امام پر اس صورت میں لازم ہے کہ اب توبہ کرلے پھر سب لوگ اس کے پیچھے نماز پڑھیں اور توبہ کے بعد بھی جو لوگ الگ نماز پڑھیں گے وہ تفریق المسلمین کے مجرم ہوں گے*
📿اگر بیزار شدہ لوگ مسجد اور اس کی جماعت چھوڑ کر بلاوجہ شرعی گھر پر نماز پڑھتے ہیں اگر چہ ان کی نماز ہوجاتی ہے مگر وہ گنہگار ہوتے ہیں رہی جمعہ کی نماز تو اسے قائم کرنے کے لئے سلطان اسلام یا اس کا نائب یا اس کا ماذون شرط ہے اور جہاں سلطان اسلام نہ ہو وہاں ضلع کے سب سے بڑے سنی صحیح العقیدہ عالم کے اذان سے امام جمعہ و عیدین مقرر ہوسکتا ہے اور جہاں یہ بھی نہ ہو تو بمجبوری جسے وہاں کے عامہ مسلمین انتخاب کرلیں وہ جمعہ قائم کرکے اس کی امامت کرسکتا ہے ہر شخص کو اختیار نہیں کہ وہ بطور خود یا دس بیس یاسو پچاس آدمی کے کہنے سے جمعہ کا امام بن جاے گا ایساشخص اگر چہ اس کا عقیدہ صحیح ہو اور عمل میں بھی فسق وفجور نہ ہو جب بھی جمعہ کی امامت نہیں کرسکتا اگر کرے گا نماز اس کے پیچھے باطل محض ہوگی
*(📘فتاوی رضویہ جلد سوم ص275)*
*اگر بیزار شدہ لوگ اگر نئی مسجد اس لئے بنانا چاہتے ہیں کہ پرانی مسجد میں آنے سے فتنہ کا اندیشہ ہے تو ان کا یہ اقدام درست ہوگا*
🍁اور اگر ان کا مقصود پرانی مسجد کو ضرر دینا ہے اور جماعت مسلمین میں تفرقہ ڈالنا ہے تو ہر گز درست نہیں
(📕 فتاوی رضویہ جلد ششم ص425)
*(📙فتاوی فقیہ ملت جلد اول ص237)*
*🔹واللہ اعلم ورسولہ🔹*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*✍کتبــــــــــــــہ :-*
*حضرت علامہ و مولانا محمداسماعیل خاں امجدی صاحب قبلہ مدظلہ العالی و النورانی دولہا پور گونڈہ یوپی*
*🗳آپ کا سوال ہمارا جواب گروپ 🗳*
رابطــہ ؛📞9918562794
*تاریخ؛ 25/جولائی 2019 ء*