سوال: پان کھانے کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ جائز ہے حرام ہے یا مکروہ؟
جواب: جواب کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھیں کہ پان کیسے بنتا ہے؟
معلوم ہونا چاہیے کہ پان کا پتہ ایک بیل سے لیا جاتا ہے جسے تنبول بیل یا ناگ بیل کہتے ہیں۔ پھر پان بنانے کے لئے پان کی پتی پر چُونا اور کتّھا لگا کر اِس میں چھالی ڈال کر چبایا جاتا ہے۔ پان کا ذائقہ بڑھانے کے لئے اِس میں کچھ اَور بھی چیزیں ڈالی جاتی ہیں، جیسے مصالحے، گلقند، سونف، الائچی، تمباکو وغیرہ۔
پان کی اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے علماء نے دو اعتبار سے پان کا حکم بیان فرمایا ہے،
(١) پان کا حکم چُونے کے اعتبار سے
(٢٢) پان کا حکم تمباکو کے اعتبار سے
اوّل کی تفصیل یہ ہے کہ: چونہ مٹی سے بنتا ہے، اور مٹی کا کھانا مکروہ ہے، اسلئے کہ وہ صحت کیلئے نقصان دہ ہے، البتہ اتنی کم مقدار جس سے نقصان نہ ہو کھانے کی گنجائش ہے،
"وان کان یتناول منہ قلیلا او کان یفعل ذالک احیاناً لا باْس بہ" (ھندیہ٥/ ٣٤٠٠)
اور مولانا عبدالحی لکھنوی فرنگی محلی نے "نصاب الاحتساب" میں واضح طور پر پان میں چونہ کھانے کی اجازت نقل فرمائی ہے، فرماتے ہیں: ہندوستان میں کھائے جانے والے پتّے (پان) کے ساتھ چونا کھانا مباح (جائز) ہے، اسلئے کہ وہ کم مقدار میں ہے اور مفید ہے، اور مذکورہ پتّے کا مقصد اس کے بغیر حاصل نہیں ہوتا، پس پان میں چونا کھانا جائز اور درست ہے.
"یباح اکل النورۃ مع الورق الماکول فی دیار الہند، لانہ قلیل نافع فان الغرض المطلوب من الورق المذکور لا یحصل بدونھا"
(فتاوی عبدالحی ص:٤١٣)
(ملخص از: کتاب الفتاوی ٦/ ١٨٣٣)
خلاصہ کلام: یہ ہے کہ پان میں چونا کھانا یا چُونے والا پان کھانا جائز ہے،
(٢) تمباکو کے اعتبار سے پان کا حکم
اسکی تفصیل یہ ہے کہ: پان میں کھانے کا جو تمباکو / یا زردہ ہوتا ہے اس میں سُکر (نشہ) نہیں ہوتا ہے بلکہ حِدَّت (تیزی) ہوتی ہے۔ جس سے کبھی کبھی چکر بھی آجاتا ہے،
اسکا حکم یہ ہے کہ: اسکے کھانے کی بھی گنجائش ہے، (امداد الفتاوی ٤/ ١١٦٦)
لیکن چونکہ یہ صحت کیلئے نقصان دہ ہے، اور اسمیں سے بدبو بھی آتی ہے، اسلئے اس سے بچنا بہتر ہے، اور اگر کھائے تو منھ سے بدبو کو دور کرنا ضروری ہے، خاص طور پر مسجد میں جانے سے پہلے، کیوں کہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدبودار چیز کھاکر مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے،
(صحیح بخاری ٢/ ٨٢٠) (شامی زکریا٢/ ٤٣٥)
(مستفاد از: کتاب النوازل ١٦/ ٤٩-١٤٨٨)
فائدہ: یہی حکم تمباکو والے حُقّے، بیڑی، سگریٹ، گٹکا، نِسوار وغیرہ کا ہے، یعنی جائز تو ہے، مگر بچنا زیادہ بہتر ہے، قرآن میں ہے "وکلوا مما رزقکم اللہ حلالاً طیبا" اور اللہ تعالٰی نے تمہیں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ! یعنی جن سے نفرت اور کراہیت پیدا ہو ان کو نہ کھاؤ! (سورۃ المائدہ، آیت ٨٨)
(کتاب النوازل ١٦ / ١٤٨٨)
لیکن اگر یہ سب چیزیں نشہ آور اشیاء کے ساتھ استعمال کی جائیں جیسے چَرسْ، گانجہ، اَفِیم وغیرہ تو پھر ان سب کا استعمال ناجائز ہوگا،
نیز= ان اشیاء کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال ہے، یعنی جن میں نشہ نہ ہو.
واللہ تعالٰی اعلم
جواب: جواب کو سمجھنے سے پہلے یہ سمجھیں کہ پان کیسے بنتا ہے؟
معلوم ہونا چاہیے کہ پان کا پتہ ایک بیل سے لیا جاتا ہے جسے تنبول بیل یا ناگ بیل کہتے ہیں۔ پھر پان بنانے کے لئے پان کی پتی پر چُونا اور کتّھا لگا کر اِس میں چھالی ڈال کر چبایا جاتا ہے۔ پان کا ذائقہ بڑھانے کے لئے اِس میں کچھ اَور بھی چیزیں ڈالی جاتی ہیں، جیسے مصالحے، گلقند، سونف، الائچی، تمباکو وغیرہ۔
پان کی اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے علماء نے دو اعتبار سے پان کا حکم بیان فرمایا ہے،
(١) پان کا حکم چُونے کے اعتبار سے
(٢٢) پان کا حکم تمباکو کے اعتبار سے
اوّل کی تفصیل یہ ہے کہ: چونہ مٹی سے بنتا ہے، اور مٹی کا کھانا مکروہ ہے، اسلئے کہ وہ صحت کیلئے نقصان دہ ہے، البتہ اتنی کم مقدار جس سے نقصان نہ ہو کھانے کی گنجائش ہے،
"وان کان یتناول منہ قلیلا او کان یفعل ذالک احیاناً لا باْس بہ" (ھندیہ٥/ ٣٤٠٠)
اور مولانا عبدالحی لکھنوی فرنگی محلی نے "نصاب الاحتساب" میں واضح طور پر پان میں چونہ کھانے کی اجازت نقل فرمائی ہے، فرماتے ہیں: ہندوستان میں کھائے جانے والے پتّے (پان) کے ساتھ چونا کھانا مباح (جائز) ہے، اسلئے کہ وہ کم مقدار میں ہے اور مفید ہے، اور مذکورہ پتّے کا مقصد اس کے بغیر حاصل نہیں ہوتا، پس پان میں چونا کھانا جائز اور درست ہے.
"یباح اکل النورۃ مع الورق الماکول فی دیار الہند، لانہ قلیل نافع فان الغرض المطلوب من الورق المذکور لا یحصل بدونھا"
(فتاوی عبدالحی ص:٤١٣)
(ملخص از: کتاب الفتاوی ٦/ ١٨٣٣)
خلاصہ کلام: یہ ہے کہ پان میں چونا کھانا یا چُونے والا پان کھانا جائز ہے،
(٢) تمباکو کے اعتبار سے پان کا حکم
اسکی تفصیل یہ ہے کہ: پان میں کھانے کا جو تمباکو / یا زردہ ہوتا ہے اس میں سُکر (نشہ) نہیں ہوتا ہے بلکہ حِدَّت (تیزی) ہوتی ہے۔ جس سے کبھی کبھی چکر بھی آجاتا ہے،
اسکا حکم یہ ہے کہ: اسکے کھانے کی بھی گنجائش ہے، (امداد الفتاوی ٤/ ١١٦٦)
لیکن چونکہ یہ صحت کیلئے نقصان دہ ہے، اور اسمیں سے بدبو بھی آتی ہے، اسلئے اس سے بچنا بہتر ہے، اور اگر کھائے تو منھ سے بدبو کو دور کرنا ضروری ہے، خاص طور پر مسجد میں جانے سے پہلے، کیوں کہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدبودار چیز کھاکر مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے،
(صحیح بخاری ٢/ ٨٢٠) (شامی زکریا٢/ ٤٣٥)
(مستفاد از: کتاب النوازل ١٦/ ٤٩-١٤٨٨)
فائدہ: یہی حکم تمباکو والے حُقّے، بیڑی، سگریٹ، گٹکا، نِسوار وغیرہ کا ہے، یعنی جائز تو ہے، مگر بچنا زیادہ بہتر ہے، قرآن میں ہے "وکلوا مما رزقکم اللہ حلالاً طیبا" اور اللہ تعالٰی نے تمہیں جو حلال اور پاکیزہ چیزیں عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ! یعنی جن سے نفرت اور کراہیت پیدا ہو ان کو نہ کھاؤ! (سورۃ المائدہ، آیت ٨٨)
(کتاب النوازل ١٦ / ١٤٨٨)
لیکن اگر یہ سب چیزیں نشہ آور اشیاء کے ساتھ استعمال کی جائیں جیسے چَرسْ، گانجہ، اَفِیم وغیرہ تو پھر ان سب کا استعمال ناجائز ہوگا،
نیز= ان اشیاء کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال ہے، یعنی جن میں نشہ نہ ہو.
واللہ تعالٰی اعلم