Tuesday, October 3, 2023

*🌸والد اپنی زندگی میں پروپٹی کو اولاد میں تقسیم کر کے دے سکتا ہے یا نہیں؟

*wald apni zindagi me parupati ko awlad me taqsim kar ke dy sakta hai ya nahi?*
*🌸والد اپنی زندگی میں پروپٹی کو اولاد میں تقسیم کر کے دے سکتا ہے یا نہیں؟🌸*
*گـوگــل پـر پـڑھـنـے کـے لـئـے اس لـنــک پــر کلـک کــریــں👇🏻👇🏻👇🏻*
https://www.saadidarulifta.in/2020/12/blog-post_42.html


*♣️ـــــــــــــــــــ🍥💎🍥ـــــــــــــــــــــ♣️*
*(🕋)السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ(🕋)*
*📜سـوال__________↓↓↓* 
 *کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اس مسٸلہ میں کہ زید اپنی زندگی میں اپنی پروپٹی کو اولاد میں کس طرح تقسیم کرےگا۔۔۔۔۔۔ زید ۔۔۔۔ اس کی بیوی ۔۔۔ دو لڑکا ۔۔۔ ایک لڑکی۔۔۔۔۔۔زید اپنے پاس کتنا رکھےگا اپنی بیوی کو کتنا دےگا اور بچوں کو کتنا کتنا دےگا۔۔۔براۓ کرم جواب عنایت فرماۓ کرم نوازش ہوگی۔*
*✍️السائل۔👈فقیر صلاح الدین بھلہاوی رضوی سیتامڑھی (بہار)*
*❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••*
*(💓)وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ(💓)*
*📝الجـــــوابـــــ: بعون الملک الوہابــــ👇*
*اگر زید چاہے اپنی باحیاتی زندگی میں اپنی اولاد کو حصہ دے سکتا ہے، اور سب کو برابر دے۔ اعلی حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : مذہب مفتی بہ پر افضل یہی ہے کہ بیٹوں بیٹیوں سب کو برابر دے، یہی قول امام ابویوسف کا ہے اور للذکر مثل حظ الانثین۔(مرد کو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔) دینا بھی جیسا کہ قول امام محمد رحمہ اللہ کاہے ممنوع وناجائز نہیں اگر چہ ترک اولٰی ہے۔* 
*ردالمحتار میں علامہ خیرالدین رملی سے ہے :*👇
*(الفتوی علی قول ابی یوسف من ان التنصیف بین الذکر والانثٰی افضل من التثلیث الذی هو قول محمد)*
*📄فتوٰی امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی کے قول پر ہے کہ مرد اور عورت کو نصف نصف دینا، مرد کو دو اور عورت کو ایک، تین حصے بنانے سے بہتر ہے اور یہ تین حصے امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ کا مذہب ہے۔*
*(حاشیہ طحطاوی میں فتاوٰی بزازیہ سے ہے :الافضل فی هبة البنت والابن التثلیث کالمیراث وعند الثانی التنصیف وھو المختار)*
*📑بیٹی اور بیٹے کو ہبہ دینے میں تین حصے میراث کے طورپر افضل ہے۔ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک نصف نصف دینا افضل ہے اور یہی مختار ہے۔بالجملہ خلاف افضلیت میں ہے اور مذہب مختار پر اولٰی تسویہ، ہاں اگر بعض اولاد فضل دینی میں بعض سے زائد ہو تو اس کی ترجیح میں اصلا باک نہیں۔*

*علامہ طحطاوی نے فرمایا👇*
*( یکرہ ذٰلک عند تساویهم فی الدرجة کما فی المنح والنهدیة اما عند عدم التساوی کما اذا کان احدھم مشتغلا بالعلم لابالکسب لاباس ان یفضله علی غیرہ کما فی الملتقط ای ولایکرہ وفی المنح روی عن الامام انه لاباس به اذا کان التفضیل لزیادۃ فضل له فی الدین. الخ)*
*درجہ میں برابر ہونے کی صورت میں مکروہ ہے جیسا کہ منح اورہندیہ میں ہے لیکن مساوی نہ ہوں مثلا ایک علم دین میں مشغول ہے اور کسب نہیں کرتا تو اس کو دوسروں پر فضیلت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ ملتقط میں ہے یعنی مکروہ نہیں ہے۔اور منح میں ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ جب دین میں فضیلت رکھتا ہو تو اس کو فضیلت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے الخ۔*
*📓(( جلد 19 صفحہ 231))*
*🔖واللـہ تـعـالیٰ اعـلـم بـالـصـواب🔖* 
*_◆ــــــــــــــــــــــ🕸️💎🕸️ـــــــــــــــــــــــــ◆_*
*((✍️کتبـــــــــــــــــــــہ👇))* 
*حـضـرت عـلامـہ ومـولانا مـفـتـی مـحـمّـد مـظہـر حسیـن سـعـدی رضـوی صـاحـب قـبلـہ مـدظـلـہ الـعـالـی والـنـورانـی،خادم سعدی دار الافتاء،متوطن : نل باڑی، سونا پور ہاٹ، اتردیناجپور، ویسٹ بنگال،الہند۔*
*گروپ میں ایڈ ہونے کے لیے*
*📞رابـطـــہ کـــــــــــــریــں👇*
*📲+91 87939 69359*
*_◆ــــــــــــــــــــــ🕸️💎🕸️ـــــــــــــــــــــــــ◆_*
*🗓 (۲۳)👈ربیع الاول شریف،۲۴۴۱؁ھ مطابق(۱۰)نومبر ٠٢٠٢؁ء بروز👈منگل*
*_◆ـــــــــــــــــــــــ🕸️💎🕸️ـــــــــــــــــــــــ◆_*
*📁المشتـــــہر👇*
*المنتظمین!!!کـنـزالایمـان فقہی گـروپ بـانـی مـحـمّـد رضــا بـرکاتـی مـقـام جـئـےنـگـرضـلـع روتـہـٹ(نیپــال)*
*🌹رابــطــــہ نــمـبــــــــر👇*
*📲+91 7237805032*
*_◆ــــــــــــــــــــــ🕸️💎🕸️ـــــــــــــــــــــــــ◆_*
*❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁*
       *📚کـنـزالایـمـان فقـہی گــروپ📚*
      *📚سنـی مسـائل شرعیـہ گـروپ📚*
*❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁*
*میں شامل ہونے کے لئے رابـــــطہ کریـــــں👇*
*(+91 7237805032)* *(+919749012752)*
🎴♦️🎴♦️🎴♦️🎴♦️🎴♦️🎴 
*••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••*
         *(📚کـنـزالایمـان فقہـی گـروپ📚)*
*••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••*
*🔘نوٹ:👈اس پوسٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہرگز ہرگز نہ کریں ورنہ معلوم ہونے پر قانونی کاروائی کی جاسکتی ہے-*

Thursday, June 15, 2023

فراز عرش نے چوما حسین کا سجدہ

فراز عرش نے چوما حسین کا سجدہ
بنا ہے کعبے کا طغرہ حسین کا سجدہ

ہر ایک سجدہ براتی لگے ہیں محشر میں
بنا ہے حشر میں دولہا حسین کا سجدہ

بشر بشر ہے ملٰٸک بھی جس پہ نازا ہے
ادا ہوا ہے کچھ ایسا حسین کا سجدہ

لب حسین تلاوت کرے ہیں نیزے پر
ہے کربلا کا صحیفہ حسین کا سجدہ

زمین کرب وبلا پہ نبی کے سجدوں سے
شعور سیکھ کے آیا حسین کا سجدہ

نماز عرش کا تحفہ براۓ امت ہے
براۓ عرش ہے تحفہ حسین کا سجدہ

جناب فاطمہ زہرا اپنے آنچل میں 
بہت سنبھال کے رکھا حسین کا سجدہ

نکالتا ہی رہےگا قیام محشر تک 
یزیدیت کا جنازہ حسین کا سجدہ

Thursday, May 25, 2023

رفع یدین جائز ہے یا نہیں اور شرعی حکم کیا ہے ؟

رفع یدین جائز ہے یا نہیں اور شرعی حکم کیا ہے ؟
سائل : محمد جاوید پنجاب پاکستان
بسمہ تعالیٰ

الجواب بعون الملک الوھّاب
اللھم ھدایۃ الحق و الصواب

احناف کے نزدیک نماز میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنا سنت ہے اور کرنا خلافِ سنت اور مکروہِ تنزیہی ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ رفع یدین کرنا ثابت نہیں بلکہ ہمیشہ رفع یدین نہ کرنا ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے رفع یدین کرتے تھے لیکن بعد رفع یدین کرنا چھوڑ دیا جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ رفع یدین کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔

چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

"الا اخبرکم بصلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : فقام فرفع یدیہ اول مرۃ ثم لم یعد”

خبردار! کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے خبر دوں؟
راوی فرماتے ہیں کہ پھر، آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، پس آپ رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ اپنے ہاتھوں کو اٹھایا پھر دوبارہ ہاتھ نہ اٹھائے۔
(سنن نسائی جلد 2 صفحہ 182 مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب، سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 199 المکتبۃ العصریہ بیروت)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

"الا اصلی بکم صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فصلی، فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ”

کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والی نماز نہ پڑھاؤں؟
تو آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی، پس آپ رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ کے سوا اپنے ہاتھوں کو نہ اٹھایا۔
(سنن ترمذی، ابواب الصلاة، باب ماجاء ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ، صفحہ 83 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)
اس حدیثِ مبارکہ کے تحت امام محدث ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

"حدیث ابن مسعود حدیث حسن۔ وبہ یقول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و التابعین۔ و ھو قول سفیان الثوری و اھل الکوفۃ”

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث، حسن حدیث ہے اور اسی کے ساتھ متعدد صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنھم نے قول کیا ہے، اور یہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہلِ کوفہ کا قول ہے۔
(جامع ترمذی جلد 2 صفحہ 83 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :
"ان رسول  الله صلی  الله علیه وسلم کان اذا افتتح الصلاة رفع یدیہ الی قریب من أذنیه ثم لم لایعود”
بےشک رسول  اللہ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کو شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے مبارک کانوں کے قریب اٹھاتے پھر (اس کے بعد اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں) کو نہ اٹھاتے۔

(سنن أبی داؤد، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، صفحہ 130، رقم الحدیث : 749 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)

حضرت جابر بن سمرہ رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
"خرج علینا رسول الله صلی  الله علیه وسلم. فقال : مالي أراکم رافعی أیدیکم کأنها أذناب خیل شمس ؟ اسکنوا في الصلاة”

حضور صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری جانب تشریف لائے، پس فرمایا :
یہ کیا بات ہے کہ تمہیں ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں، جیسے چنچل (سرکش) گھوڑے کی دُمیں، نماز میں سکون کے ساتھ رہو۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ۔۔۔الخ، رقم الحدیث : 430، صفحہ 168 دارالکتب العلمیہ بیروت)

حضرت براء بن عازب رضی  اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
"رأیت رسول الله صلی الله علیه و سلم رفع یدیه حین استقبل الصلاة، حتی رأیت إبهامیه قریبًا من أذنیه، ثم لم یرفعهما”
میں نے رسول  اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جب نماز شروع فرمائی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، پھر (اس کے بعد نماز کے آخر تک) دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔

(مسند أبی یعلی، مسند البراء بن عازب، جلد 3، صفحہ 249، دارالمامون للتراث دمشق)

حضرت اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
"رأیت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ یرفع یدیه في أول تکبیرة، ثم لایعود”
میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نماز میں صرف شروع کی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کسی اور تکبیر میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔
(شرح معانی الآثار، باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود، جلد 1، صفحہ 227، مطبوعہ عالم الکتب)
حضرت عاصم بن کلیب جرمی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت کلیب جرمی رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
"رأیت علی بن أبي طالب رفع یدیه في التکبیرة الأولی من الصلاة المکتوبة و لم یرفعهما سوی ذلك”

میں نے حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم کو دیکھا کہ فرض نماز کی تکبیرِ اولیٰ (یعنی تکبیرِ تحریمہ) میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، اور اس کے سوا (کسی اور تکبیر میں) ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے۔

(مؤطا إمام محمد صفحہ 84، 85 مکتبہ رحمانیہ لاہور)

حضرت عاصم بن کلیب جرمی رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت کلیب جرمی رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ :
"ان علیا کان یرفع یدیه اذا افتتح الصلاة ثم لایعود”
بےشک حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم جب نماز کو شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے پھر (اس کے سوا کسی اور تکبیر میں) ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے۔
(شرح معانی الآثار، باب التکبیر للرکوع، جلد 1، صفحہ 225، مطبوعہ عالم الکتب)
اس کے تحت علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"وھو اثر صحیح”
اور یہ اثر صحیح ہے۔
(شرح سنن ابی داؤد، باب فی رفع الیدین، جلد 3، صفحہ 301، مکتبۃ الرشد الریاض)

حضرت مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق دریافت کیا :
أنه رأی النبي صلی الله علیه  وسلم یرفع یدیه إذا افتتح الصلاة وإذا رکع وإذا رفع رأسه من الرکوع؟ فقال : إن کان وائل رآه مرةً یفعل ذلك، فقد رآه عبد الله خمسین مرةً لایفعل ذلك”
کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے،
تو اس پر حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ :
اگر حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک اس طرح (رفع یدین) کرتے ہوئے دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پچاس بار دیکھا کہ انہوں نے رفع یدین نہیں کیا۔
(شرح معاني الآثار، للطحاوي، باب التکبیر عندالرکوع ،جلد 1، صفحہ 224، مطبوعہ عالم الکتب)

حضرت مجاهد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
"ما رایت ابن عمر، یرفع یدیه إلا في أول ما یفتتح”
میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی  اللہ عنھما کو دیکھا کہ وہ نماز کے شروع کے علاوہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"فهذا ابن عمر قد رأی النبي صلی  الله علیه وسلم یرفع، ثمَّ قد ترک هو الرفع بعد النبي صلی  الله علیه وسلم فلا یکون ذلك إلا وقد ثبت عنده نسخ ما قدرأی النبي صلی الله علیه و سلم فعله و قامت الحجة علیه بذلك”
پس یہ ابن عمر رضی اللہ عنھما ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے دیکھا پھر اسی ہاتھ اٹھانے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ترک کر دیا، تو یہ نہیں ہوا ہوگا مگر اس وقت کہ ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اس (رفع یدین) کا منسوخ ہونا ثانت ہوچکا ہوگا اور (ان کے نزدیک) رفع یدین کے منسوخ ہونے پر دلیل قائم ہوچکی ہوگی۔
(شرح معانی الآثار، باب التکبیر للرکوع و التکبیر للسجود، جلد 1، صفحہ 225، مطبوعہ عالم الکتب)

علامہ امام علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"واما رفع الیدین عند التکبیر، فلیس بسنۃ فی الفرائض عندنا الا فی تکبیرۃ الافتتاح”
اور بہرحال فرائض میں تکبیر کے وقت رفع الیدین (یعنی دونوں ہاتھوں کو اٹھانا) ہمارے نزدیک سنت نہیں ہے مگر صرف تکبیرِ افتتاح (یعنی تکبیرِ تحریمہ) میں۔
(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، جلد 1، صفحہ 484 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ : مفتی ابواسیدعبیدرضامدنی

Tuesday, March 21, 2023

میت کے ذمے روزے باقی ہوں تو گھر والے اس کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں یا فدیہ دیں؟

میت کے ذمے روزے باقی ہوں تو گھر والے اس کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں یا فدیہ دیں؟

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مجھے میرے ایک دوست نے ایک پوسٹ بھیجی جس میں بخاری شریف کے حوالے سے لکھاتھاکہ جس شخص کا انتقال ہوااوراس کے ذمےروزے باقی ہوں ،تومیت کا ولی میت کی طرف سے روزے رکھے، برائے کرم یہ رہنمائی فرمادیں کہ  کیاواقعی میت کی طرف سے روزے رکھے جاسکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جس شخص کے ذمےروزوں کی قضاباقی ہواورانہیں اداکرنے سے پہلے وہ مرجائے،تو اس کی طرف سے کوئی اور روزہ ادا نہیں کرسکتا،کیونکہ روزہ بدنی عبادت ہے، اس میں نیابت نہیں ہوسکتی ،جبکہ  بخاری شریف کی جس حدیث میں میت کی طرف سے روزہ رکھنے کاذکرہے اس  حدیث  کی وضاحت کرتے ہوئے شارحینِ حدیث نے وضاحت فرمائی ہے  کہ اس حدیث میں روزہ رکھنے سے مراد فدیہ دیناہے۔

    بخاری شریف کی روایت ہے :”عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :من مات وعلیہ صوم صام عنہ ولیہ“  یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جومرگیااوراس پرروزے تھے، تواس کی طرف سے اس کا ولی روزے اداکرے ۔

(صحیح بخاری ،جلد1،صفحہ262،مطبوعہ کراچی)

    اس روایت کے تحت عمدۃ القاری میں ہے :”حجۃ اصحابنا الحنفیۃ ومن تبعھم فی ھذا الباب فی ان مات وعلیہ صیام لایصوم عنہ احد ولکنہ ان اوصی بہ اطعم ولیہ کل یوم مسکین نصف صاع من براوصاعامن تمراوشعیر“ یعنی ہمارے حنفی اصحاب اور ان کے متبعین کی اس باب میں یہ دلیل ہے کہ جو شخص مرجائے اوراس کے ذمے روزے ہوں، توکوئی اوراس کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا،لیکن اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو،تو میت کا ولی ہردن کے بدلے مسکین کو نصف صاع گندم یاایک صاع کھجوریاجَودے گا۔

(عمدۃ القاری ،جلد11،صفحہ59،مطبوعہ بیروت)

    بخاری شریف کی روایت کی وضاحت کرتے ہوئے لمعات التنقیح  شرح مشکٰوۃ المصابیح میں فرمایا:” ذھب الجمھور الی انہ لایصام عنہ وبہ قال ابوحنیفۃ ومالک والشافعی فی اصح قولیہ، واولوا الحدیث بان المراد اطعام الولی عنہ وتکفیرہ عنہ “یعنی جمہور اس طرف گئے ہیں کہ میت کی طرف سے روزے نہیں رکھے جائیں گے ،یہی قول  امام اعظم ابوحنیفہ ،امام مالک ،امام شافعی کے دوقولوں میں سے اصح قول ہےاوران علماء نے اوپرذکرکردہ حدیث کی تاویل یہ بیان فرمائی کہ یہاں ولی کے روزہ رکھنے سے مرادولی کامیت کی طرف سے کھانا کھلانااورکفارہ دیناہے ۔

(لمعات التنقیح شرح مشکٰوۃ المصابیح،جلد4،صفحہ465،مطبوعہ لاھور)

    مرقاۃ المفاتیح میں ہے:”صام ای :کفرعنہ ولیہ قال الطیبی تاویل الحدیث انہ یتدارک ذلک ولیہ بالاطعام فکانہ صام“  یعنی ایسے شخص کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے یعنی کفارہ دے ، علامہ طیبی نے کہا حدیث کی تاویل یہ ہے کہ اس کاتدارک میت کاولی کھانا کھلاکر کرےگا ،گویاکہ اس نے میت کی طرف سے روزہ رکھا۔

(مرقاۃ المفاتیح ،جلد4،صفحہ282،مطبوعہ ملتان)

     مرآۃ المناجیح میں ہے:”جس شخص پر رمضان یا نذر کا روزہ قضا ہوگیا پھر اسے قضا کرنے کا موقع ملا، مگر قضا نہ کیا کہ مرگیا، تو اس کا ولی وارث اس کی طرف سے روزہ ادا کردے۔امام احمد کے ہاں اس طرح کہ روزے رکھ دے اور باقی تمام اماموں کے ہاں اس طرح کہ روزوں کا فدیہ دے دے چند وجہوں سے:ایک یہ کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے﴿وَعَلَی الَّذِیۡنَ یُطِیۡقُوۡنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیۡنٍ ﴾ جو روزہ کی طاقت نہ رکھیں ان پر فدیہ ہے اور میت بھی  اب طاقت نہیں رکھتا۔دوسرے یہ کہ خود حدیث شریف میں صراحۃً وارد ہوا کہ:’’ الا لایصومن احدٌ عن احد و لا یصلین احد عن احد‘‘کوئی کسی کی طرف سے نہ روزہ رکھے نہ نماز پڑھے، جیساکہ آگے آرہا ہے۔تیسرے یہ کہ خود صحابہ کرام کا فتوی یہ رہا کہ میت کی طرف سے روزوں کا فدیہ دیا جاوے روزہ رکھا نہ جائے،دیکھو مرقات۔چوتھے یہ کہ قیاس شرعی بھی یہی چاہتاہے کیونکہ نماز بمقابلہ روزہ زیادہ اہم اور ضروری ہے ،مگر میت کی طرف سے کوئی نمازیں نہیں پڑھتا، تو روزے کیسے رکھ سکتا ہے، محض بدنی عبادت خودہی کرنی پڑتی ہے دوسرے سے نہیں کرائی جاتی۔“

(مرآۃ المناجیح ،جلد3،صفحہ177،ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت
(دعوت اسلامی) سے لیا گیا

(کتبہ) محمد عمران علی نعمانی رضوی۔ماگورجان۔اتر دیناجپور ویسٹ بنگال
📲9773617995📱

Monday, March 20, 2023

فوت شدہ کی نمازوں کا فدیہ

فوت شدہ کی نمازوں کا فدیہ

سوال: میری ایک رشتہ دار وفات پاگئی ہیں ان کی نمازیں جو قضا ہوئی ہیں ان کا کیا کیا جائے؟

سائل : ہارون قادری

بسم الله الرحمن الرحيم الجواب بعون الملك الوهاب اللهم هداية الحق والصواب جس پر قضا نمازیں ہوں اور وہ فوت ہو جائے تو اسکے ہر فرض نماز و وتر کے بدلے صدقہ فطر کی مقدار فدیہ دیا جائے گا ایک صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع (2 کلو میں 80 گرام کم گندم یا اس کا آٹا، یا ایک صاع (یعنی 4 کلو میں 160 گرام کم کھجور ، یا کشمش یا جو یا اس کا آتا ہے۔ اور صدقہ فطر کی مقدار کے حوالے سے سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : فَرَضَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه و آله و سلم هذه الصدقة صاعًا مِنْ تَمْرِ أَوْ شَعِيرِ أَوْ نِصْفَ صَاعِ مِنْ قَبْحٍ عَلَى كُلِّ حَنٍ أَوْ مَمْلُوكِ ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى صَغِيرِ أَوْ كَبِير. ترجمه : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو مقرر فرمایا ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا جو اور نصف صاع گندم ہر آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے کی طرف سے۔

سن ابو داود، کتاب الزکاة، باب من روی نصف صاع من تح 2/114، الرقم : 1619)

 صدر الشریعہ فرماتے ہیں: جس کی نمازیں قضا ہو گئیں اور انتقال ہو گیا تو اگر وصیت کر گیا اور مال بھی چھوڑا تو اس کی تہائی سے ہر فرض و وتر کے بدلے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو تصدق کریں ۔ 

(بہار شریعت جلد اول، حصہ چہارم، قضا نماز کا بیان، صفحه 707 ، مکتبۃ المدینہ کراچی) والله اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلى الله علیه و آله و سلم

(کتبہ) محمد عمران علی نعمانی رضوی۔ماگورجان۔اتر دیناجپور ویسٹ بنگال
📲9773617995📱

Thursday, March 9, 2023

📚کیا حنفی مقتدی شافعی، مالکی، حنبلی امام کی اقتداء کر سکتاہے 📚*

*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
--------------------------------------
*📚کیا حنفی مقتدی شافعی، مالکی، حنبلی امام کی اقتداء کر سکتا ہے📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ علماءاکرام ومفتیان عظام کے بارگاہ میں عریضہ پیش کرتے ہیں ہماری رہنمائ فرمائں امام ابو حنیفہ کے اقتدا کرنے والے کی نماز
؟ امام شافع یا پھر امام حمبل یا امام مالک کے اقتدا کرنے والو کے پیچھے نماز ہو گی یا نہیں تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائں اور شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

سائل؛ عاشق حسین
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*الجواب بعون الوھاب؛*
 اگر شافعی امام کوئی ایسا کام کرے مذہب حنفی کے مطابق ناقض وضو ہو یا مفسد نماز ہو جیسے منہ بھر قے ہوئے یا غیر سبیلین سے خون وغیرہ نکل کر بہنے کے بعد وضو نہ کیا یا ماء مستعمل سے وضو کیا یا وضو میں چوتھائی سر سے کم مسح کیا صاحب ترتیب ہوکر یاد ہوتے ہوئے اور وقت میں وسعت کے با وجود قضا پڑھے یا کوئی فرض ایک بار پڑھکر اسی فرض نماز کی امامت کررہا ہو تو شافعی امام کی اقتداء درست نہیں ہے
*(📘جیسا کہ غنیہ ص480 میں ہے)* 
*اما الاقتداء بالمخالف فی الفروع کالشافعی فیجوز ما یعلم منہ ما یفسدالصلوۃ علی الاعتقادی المقتدی علیہ الاجماع)*
 اور اگر شافعی امام مسائل حنفیہ کی رعایت کرتا ہے تو اسکے پیچھے حنفیوں کی نماز پڑھنا درست ہے بشرطیکہ مذہبی وغیرہ اور وجہ مانع امامت نہ ہو  
*(📕جیسا کہ ردالمحتار جلد اول صفحہ 480 میں کبری سے ہے)*
*ان علم الاحتیاط منہ فی مذھبنا فلا کراھۃ فی الاقتداء بہ*
 مگر حنفیوں کو رفع یدین میں اسکی اتباع کرنا مکروہ ہے اور شافعی امام جب کہ وتر دوسلام سے پڑھے تو حنفیوں کو اقتداء درست نہیں جیسا کہ 
*(📙در مختار مع شامی جلد اول صفحہ 448 میں ہے)*
*صح الاقتداء فیہ الشافعی لم یفصلہ بسلام لا ان فصلہ علی الاصح اھ تلخیصاً)*
*(📘فتاوی فیض الرسول جلد اول ص260)*

*واللہ تعالٰی اعلم* 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*کتبـــہ؛*
*حضرت علامہ محمد اسماعیل خان امجدی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی؛ دارالعلوم شہید اعظم دولھا پور پہاڑی پوسٹ انٹیاتھوک ضلع گونڈہ یوپی*
*رابطہ؛📞9918562794)*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

Monday, January 30, 2023

*📝دعا مانگنے کا مسنون طریقہ📝

*📝دعا مانگنے کا مسنون طریقہ📝*

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسٔلہ ذیل میں
دعا مانگتے وقت ہاتھ کس طرح کر نے چاہئیں مع حوالہ
فقیر محمد عدنان رامپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

*الجواب بعون الملک الوہاب*

دعا مانگنے کا  مسنون طریقہ یہ ہے کہ دعا کے وقت با ادب قبلہ رو مئودب دو زانوں ہوکر بیٹھے اور اپنی دونوں  ہتھیلیوں میں کچھ فاصلہ رکھ کر دونوں ہاتھ سینہ کے برابر کر کے  اوپر آسمان کی طرف  اٹھا ئے اور دعا کرے 

جیسا کہ اعلیٰ حضرت  فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں  کہ 
دونوں  ہاتھوں میں کچھ فاصلہ ہو 

فی الدر المختار یبسط یدیہ حذاء صدرہ نحو السماء لانھا قبلۃ الدعاء و یکون بینھما فرجۃ فی رد المحتار ای وان قلت قنیۃ 
درمختار میں ہے وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینہ کے برابر آسمان کی طرف پھیلائے کیوں کہ آسمان دعا کا قبلہ ہے اور ان کے درمیان فاصلہ ہو رد المحتار میں ہے اگر چہ تھوڑا فاصلہ ہی ہو قنیۃ ت"اھ 

(فتاویٰ رضویہ شریف ج 6 ص 328 رضا فاؤنڈیشن )

واللہ اعلم بالصواب

*(کتبہ)*
محمد ریحان رضا رضوی 
فرحاباڑی ٹیڑھاگاچھ وایہ بہادر گنج 
ضلع کشن گنج بہار انڈیا موبائل نمبر 6287118487

رجب المرجب "7/7/1444 ہجری
جنوری 30/1/ 2023 عیسوی 
بروز سوموار

الجواب صحیح 
حضرت علامہ مفتی شان محمد مصباحی صاحب قبلہ  فرخ آباد یوپ

Wednesday, January 25, 2023

*مصلی اگرتیسری رکعت میں الحمدکےبعدبسم اللہ پڑھےتوکیاحکم ہے*

*مصلی اگرتیسری رکعت میں الحمدکےبعدبسم اللہ پڑھےتوکیاحکم ہے*

👏سوال: فرض کی چار رکعت والی نماز میں تیسری رکعت میں الحمد کے بعد ﷽ پڑھ لی تو سجدہ سہو کرناپڑے گا ؟؟؟

👏سائل : *طارق انجم* اسلامپورہ مالیگاؤں 

 *الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب* 
✍️ مصلی اگرمنفردہےتوکچھ مضائقہ نہیں۔۔۔یہاں تک کہ اگروہ سورہ فاتحہ کےبعدکوئی سورت پڑھتاتوکچھ مضائقہ نہ تھابلکہ بعض ائمہ کےنزدیک مستحب ہے،فتاوی رضویہ میں ہے:

"بلکہ اگر قصداً بھی فرض کی پچھلی رکعتوں میں سورت ملائی تو کچھ مضائقہ نہیں صرف خلاف اولٰی ہے، بلکہ بعض ائمہ نے اس کے مستحب ہونے کی تصریح فرمائی۔
فقیر کے نزدیک ظاہراً یہ استحباب تنہا پڑھنے والے کے حق میں ہے۔۔۔۔ امام کے لئے ضرور مکروہ ہے بلکہ مقتدیوں پر گراں گذرےتو حرام.. 

📚درمختار میں ہے:
ضم سورۃ فی الاولیین من الفرض وھل یکرہ فی الاخر یین المختارلا۱؎۔ملخصاً.... فرض کی پہلی دو رکعات میں سورت کا ملانا، کیا آخری دو رکعتوں میں سورۃ ملانا مکروہ ہے؟؟ مختار قول کے مطابق مکروہ نہیں ۔ 

ملخصاً (ت)📚 (۱؎ درمختار    باب صضۃ الصلوٰۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱۷۱)📚

📚ردالمحتار میں ہے؛
ای لایکرہ تحریما بل تنزیھا لا نہ خلاف السنۃ قال فی المنیۃ وشرحھا فان ضم السورۃ الی الفاتحۃ ساھیا یجب علیہ سجدتا السھو فی قولک ابی یوسف لتاخیر الرکوع عن محلہ وفی اظھر الروایات لایجب لان القرأۃفیھا مشروعۃ من غیر تقدیر والاقتصار علی الفاتحۃ مسنو ن لا واجب اھ 

✍یعنی مکروہ تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے کیونکہ  سنت ہے۔ منیہ اوراس کی شرح میں ہے اگر بھول کر فاتحہ کے ساتھ سورۃ ملائی تو امام ابویوسف کے قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو ہوگا کیونکہ رکوع اپنے مقام سے مؤخر ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ اوراظہر روایات کے مطابق اس پر سجدہ سہو لازم نہیں کیونکہ ان آخری رکعتوں میں بغیر مقرر کرنے کے قرأت مشروع ہے اور فاتحہ پر اکتفا سنت ہے واجب نہیں اھ "(34/8)
انتہی کلامہ

*لہذامنفردنےجب "بسم اللہ۔۔۔" پڑھی توکوئی مضائقہ نہیں،نمازہوگئی اورسجدہ سہوکی ضرورت نہیں خواہ قصداپڑھےیاسہوا۔*
اب جب مصلی(منفرد) بسم اللہ اورسورت دونوں پڑھےتوجائزہے،جیساکہ اوپرمعلوم ہوا۔اور اس وقت بسم اللہ سورت کےتابع ہوگا،چناں چہ 📚بہار شریعت میں ہے:

"الحمدوسورت کےدرمیان کسی اجنبی کافاصل نہ ہونا،آمین تابع الحمدہےاوربسم اللہ تابع سورت ،یہ اجنبی نہیں۔" (518/1) 

✍️اوراگرصرف بسم اللہ پڑھاتوچونکہ بسم اللہ کلام اللہ کاجزہے؛فلہذااس نےکلام اللہ پڑھا(جس کاجوازاوپربیان ہوا)نہ کہ کوئی کلام ناس کہ نمازمیں فساد آئے۔لہذانمازنہ فاسدہوئی اورنہ سجدہ سہوکی ضرورت۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی علیہ وسلم

*محمدرضا مرکزی*
خادم التدریس والافتا
*الجامعۃ القادریہ نجم العلوم* مالیگاؤں


Sunday, January 22, 2023

*📑خلع کسے کہتے ہیں نیز عدت کتنے دن کی ہوتی ہے📑*

*📑خلع کسے کہتے ہیں نیز عدت کتنے دن کی ہوتی ہے📑*

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں "کہ
خلع کسے کہتے ہیں اور خلع ہونے کے بعد عورت عدت کتنے دن گزارے گی 
بالتفصیل جواب عنایت فرمائیں
سائل عطاء الرحمٰن قادری کلہوارہ شریف تیگھرا برونی بیگوسرائے بہار  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
*الجواب بعون الملک الوھاب* 
مال کے عوض میں عورت کو نکاح سے جدا کرنے کو خلع کہتے ہیں اور خلع کرنے کے بعد عورت اگر حیض والی ہے تو اس پر عدت تین حیض ہے اور اگر حمل والی ہو تو اس کی عدت وضعِ حمل (بچہ جن دینا) ہے اور اگر نابالغہ یا آئسہ(حیض آنے سے مایوسی کی عمر والی) ہے تو ان کی عدت تین ماہ مکمل ہے! اگر چاند کی پہلی تاریخ سے عدت کا آغاز ہو ورنہ درمیانِ ماہ سے شروع ہو تو پورے 90 دن عدت کے ہوں گے!

جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ " خلع شرع میں اسے کہتے ہیں کہ شوہر برضائے خود مہر وغیرہ مال کے عوض عورت کو نکاح سے جدا کردے " تنہا زوجہ کیلئے نہیں ہو سکتا " اھ 

(فتاویٰ رضویہ شریف ج 13 ص 264 رضا فاؤنڈیشن )

 اور حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں کہ "مال کے بدلے نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں عورت کا قبول کرنا شرط ہے بغیر اسکے قبول کئے خلع نہیں ہوسکتا اور اسکے الفاظ معین ہیں ان کے علاوہ اور لفظوں سے نہیں ہوگا "اھ 

(بہار شریعت ج 2 ح 8 خلع کا بیان ص 194  مسئلہ 1 مکتبہ دعوت اسلامی )
 
جیسا کہ  مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ " عدت کی تین قسم ہے " وفات کی عدت چار ماہ دس دن ہے  طلاق وغیرہ کی عدت حاملہ کے لئے حمل جن دینا " غیر حاملہ بالغہ کے لئے تین حیض" اور غیر حاملہ نابالغہ اور بہت بوڑھی کے لئے تین ماہ, طلاق کے علاوہ فسخ نکاح میں بھی عدت واجب ہے خواہ فسخ خاوند کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف سے عدت بہر حال ہوگی "اھ 

(مراۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح ج 5 ص 164 مکتبہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
واللہ اعلم بالصواب 

*(کتبہ)*
محمد ریحان رضا رضوی 
فرحاباڑی ٹیڑھاگاچھ وایہ بہادر گنج 
ضلع کشن گنج بہار انڈیا موبائل نمبر 6287118487

جمادی الاٰخر 29/6/1444"ہجری 
جنوری 22/1/ 2023 عیسوی
بروز اتوار 

✅الجواب صحیح
حضرت علامہ مفتی سید محمد شمس الحق برکاتی مصباحی صاحب قبلہ قاضئ شہر گوا

✅الجواب صحیح
 صاحب فتاویٰ شرف ملت حضرت علامہ مفتی محمد شرف الدین رضوی صاحب قبلہ کلکتہ بنگال

Friday, January 20, 2023

*📝دیوبندی وہابی کی مسجد میں نماز پڑھنا کیسا📝*

*📝دیوبندی وہابی کی مسجد میں نماز پڑھنا کیسا📝*

*الســـــــــلام علیــــــــکم ورحمة الله وبرکاتہ*..     *کیا فرماتے علمائے کرام ومفتیان عظام کہ وہابیوں کی مسجد میں بغیر جماعت کے نماز پڑھنا کیسا ہے یعنی اکیلا جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی*"""".              *سائل*: *محمد عرفان خان مشاہدی*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
*الجواب بعون الملک الوہاب*
تنہا(اکیلا) نماز پڑھ سکتے ہیں مگر مسجد کا ثواب نہیں ملے گا کیوں کہ ان کی مسجد " مسجد نہیں ہوتی عام گھر کی طرح

وہابی دیوبندی قادیانی رافضی کی بنائ ہوئ مسجد شرعاً مسجد نہیں  وہ عام جگہوں کے حکم میں ہے اس میں تنہا نماز پڑھ سکتے ہیں  البتہ اس میں نماز پڑھنے سے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب نہیں ملے گا

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے انما یعمر مسجد اللہ من اٰمن باللہ والیوم الاٰخر" یعنی مسجد وہی بناتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے ہیں "اھ( پارہ 10 سورہ توبہ آیت نمبر 18 )

جیسا کہ حضور  صدرالشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں " وہ گمراہ فرقے جن کی گمراہی حد کفر تک پہنچ چکی ہو جیسے قادیانی وہابی روافض ان کی بنائ ہوئ مسجد :مسجد نہیں "اھ 
(فتاویٰ امجدیہ ج 1 ص 256 احکام مسجد کا بیان )
(فتاویٰ فقیہ ملت ج 1 ص 147 امامت کا بیان )
واللہ اعلم بالصواب 

*(کتبہ)*
محمد ریحان رضا رضوی 
فرحاباڑی ٹیڑھاگاچھ وایہ بہادر گنج 
ضلع کشن گنج بہار انڈیا موبائل نمبر 6287118487

 جنوری /20/ 1/ 2023 عیسوی
جمادی الاٰخر/27/ 6/ 1444 ہجری
بروز جمعہ 

✅الجواب صحیح 
حضرت مفتی محمد اسماعیل خان امجدی صاحب قبلہ گونڈہ یوپی

Friday, January 13, 2023

💐نماز ہوٸ ہی نہیں تو اعادہ فرض ہے💐

💐نماز ہوٸ ہی نہیں تو اعادہ فرض ہے💐


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیان عظام اس مسٸلہ ذیل میں کہ
امام کی نیت چار فرضوں کی تھی پہلی دورکعات ختم کرچکے تھے بیچ میں التحیات بھول گۓ اور اللہ اکبر کہ کر کھڑا ہوگیا بعد کو مقتدی نے بتایا وہ بیٹھ گۓ التحیات پڑھی اور آخر میں سجدہ سہوکیا۔آیا مقتدی کی۔امام کی نماز ہوٸ یانہیں
حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرماٸیں
🔍المستفتی:محمد اکرم رضا رضوی
=============================
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
الجواب بعون الملک الوہاب
✍🏻اگر امام ابھی پوراسیدھا کھڑا نہ ہونے پایا تھا کہ مقتدی نے بتایا اور وہ (یعنی امام )بیٹھ گیا تو سب کی نماز ہوگٸ اور سجدہ سہو کی حاجت نہ تھی اور اگر امام پورا کھڑا ہوگیا تھا اس کے  بعد مقتدی نے بتایا تو مقتدی کی نماز اسی وقت جاتی رہی اور جب اس کے کہنے سے امام لوٹا تو اس کی بھی گٸ اور سب کی گٸ اور اگر مقتدی نے اس وقت بتایا تھا کہ امام ابھی پورا سیدھا نہ کھڑا ہواتھا کہ اتنے میں پورا سیدھا ہوگیا اس کے بعد لوٹا تو مذھب اصح میں نماز ہوتو سب کی گٸ مگر مخالفت حکم کے سبب مکروہ ہوٸ کہ سیدھا کھڑا ہونے کے بعدقعدہ اولی کیلۓ  لوٹنا جاٸز نہیں۔نماز کا اعادہ کریں خصوصا ایک مذھب قوی پر نماز ہوٸ ہی نہیں تو اعادہ فرض ہے۔

(واللہ تعالی اعلم بالصواب)

📚لقمہ کے مساٸل ص 28 )(بحوالہ فتاوی رضویہ ج 8 ص 214 رضا فاٶنڈیشن لاھور.کذا فی الھندیہ بقولہ۔ولایسبغ اذاقام الی اخریین ج1 ص99 مکتبہ حقانیہ پشاور )


(کتبہ)
محمد عمران علی نعمانی رضوی
ماگورجان۔تھانہ گوالپوکھر۔ضلع اتردیناجپور ویسٹ بنگال انڈیا
موباٸل نمبر 9773617995

Saturday, January 7, 2023

زید نے مکان مالک کو ہائی ڈپازٹ دے کے مکان لے لیا ۔ پھر زید نے بکر کو کرایے پہ مکان دے دیا اور بکر سے کرایہ خود لے رہا ہے

*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
-----------------------------------------------------------
*📚ہائی ڈپازٹ پر لئے ہوئے مکان کا شرعی حکم کیا ہے؟📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ*
*زید نے مکان مالک کو ہائی ڈپازٹ دے کے مکان لے لیا ۔ پھر زید نے بکر کو کرایے پہ مکان دے دیا اور بکر سے کرایہ خود لے رہا ہے . زید کے بارے میں قانون مصطفی میں سے کون سا قانون نافذ ہوگا .*
*مدلل و متحقق جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں . فقط والسلام*

*المستفتی: شیخ غلام معین الدین چشتی ضیائی* ◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆

*وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ*
 *👇📝الـــجـــــوابـــــــــ👇: ہائی ڈپازٹ پر مکان یا دوکان لے کر دوسرے کو کرایہ پر دینے کے سلسلے میں فقہائے کرام نے چند شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے*
 *( 1 ) کرایہ کی جگہ دوسرے شخص کو کرایہ پر دینا ایسی صورت میں جائز ہے جبکہ کرایہ دار کی جانب سے مقرر کردہ کرایہ مالکِ جائداد کے مقررہ کرایہ کے برابر ہو یا اس سے کم ہو ۔*
 *( 2 ) اگر کرایہ دار اُس سے زائد کرایہ لیتا ہو تو اضافی کرایہ صدقہ کرنا از روئے شریعت واجب ہوگا ۔*
*( 3 ) اگر کرایہ دار کرایہ پر لئے گئے مکان یا دکان وغیرہ کی مرمت کرواتا ہے یا کھلی زمین پر باؤنڈری ڈلواتا ہے یا دروازے لگواتا ہے یا کوئی اور مستقل کام کرواتا ہے تو اُسے زائد کرایہ لینے کا اختیار حاصل ہے ، نیز مالکِ جائداد کو جو کرنسی دیتا ہے اُس کے علاوہ دوسری کرنسی بطور زائد کرایہ لیتا ہے تو شرعًا گنجائش ہے ۔*
 *( 4 ) ہاں ایسے کام کے لئے کرایہ پر نہیں دے سکتا جس سے عمارت کو نقصان پہنچتا ہو*

*🏷جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے "*
*و إذا استأجر داراً و قبضها ثم آجرها فإنه یجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل ، و إن آجرها بأکثر مما استأجرها فهی جائزۃ أیضا إلا إنه إن کانت الأجرۃ الثانیة من جنس الأجرۃ الأولی فإن الزیادۃ لا تطیب له و یتصدق بها ، وإن کانت من خلاف جنسها طابت له الزیادۃ و لو زاد فی الدار زیادۃ کما لو وتد فیها وتدا أو حفر فیها بئرا أو طینا أو أصلح أبوابها أو شیئا من حوائطها طابت له الزیادۃ ، وأما الکنس فإنه لا یکون زیادۃ و له أن یؤاجرها من شاء إلا الحداد و القصار و الطحان و ما أشبه ذلک مما یضر بالبناء و یوهنه هکذا فی السراج الوهاج " اھ*

*📕( فتاوی عالمگیری ، کتاب الاجارۃ ، الباب السابع فی اجارۃ المستاجر )*

*واللہ اعلم بالصواب* ◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆

*✍شرف قلم: حضرت علامہ و مولانا کریم اللہ رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی۔*
  *📞+917666456313* ◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــ