Sunday, April 19, 2020

حضور ﷺ کو حاضر و ناظر ماننا کیسا ہے

اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیبِ کریم، رءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بےشُمار کمالات  عطا فرمائے ہیں جن میں سے ایک حاضِر و ناظِر ہونا بھی ہے۔

حاضِرو ناظِر کا مطلب حاضِر و ناظِر ہونے کا معنیٰ یہ ہے   کہ قُدسی ( یعنی اللہ کی دی ہوئی) قوت والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالَم (یعنی سارے جہان، زمین و آسمان، عرش و کرسی، لوح و قلم، ملک و ملکوت) کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دُور و قریب کی آوازیں  سُنے یا ایک آن (لمحہ بھر) میں تمام عالَم کی سیر کرے اور سینکڑوں مِیل دُور حاجت مندوں کی حاجت رَوائی کرے۔ یہ رفتار خواہ رُوحانی ہو یا جسمِ مثالی کے ساتھ ہو یا اسی مبارک جسم سے ہو جو قَبْر میں  مَدفون ہے۔(جاء الحق،ص116ملخصاً)

ضروری وضاحت ہمارا یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے کہ حُضُورِ اکرم، نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ظاہری جسمِ اَقْدس ہر ہر جگہ موجود ہے،البتّہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیک وقت ایک سے زائد مقامات پر جلوہ فرما ہوسکتے ہیں۔(من عقائد اہل السنۃ، ص318ملتقطاً)

حاضِرو ناظِرکے مفہوم کو ایک مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح آسمان کا سورج اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر ہے لیکن اپنی روشنی اور نورانیّت کے ساتھ روئے زمین پر موجود ہے اسی طرح (بلاتشبیہ) آفتابِِ نبوت، ماہتابِِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اپنے جسمِ اَقْدس کے ساتھ مدینہ شریف میں  اپنے مزارِ پُراَنوار میں موجود ہیں لیکن ساری کائنات کو  یوں دیکھتے ہیں جیسے ہاتھ کی ہتھیلی کو،نیز اُمّتیوں کےاعمال کو دیکھتے ہیں اور اللہ کے حکم سے تصرُّف بھی فرماتے ہیں۔

آیتِ قراٰنی اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:(اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸)) تَرجَمۂ کنز الایمان:بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا۔(پ26، الفتح:8)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)


تفاسیر (1)حضرت علّامہ علاء الدّين علی بن محمد خازِن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اے پیارے حبیب! بے شک ہم نے آپ کو اپنی اُمّت کے اَعْمال اور اَحْوال کا مُشاہَدہ فرمانے والا بناکر بھیجا تاکہ آپ قِیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور دنیا میں  ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو جنّت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں، نافرمانوں  کو جہنّم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بناکربھیجا ہے۔(تفسیرخازن، پ26،الفتح، تحت الآیۃ:8،ج 4،ص146)

(2)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:بیشک ہم نے تمھیں بھیجا گواہ اور خوشی اور ڈر سناتا کہ جو تمہاری تعظیم کرے اُسے فضلِ عظیم کی بَشارت دو اور جو مَعَاذَ اللہ بے تعظیمی سے پیش آئے اسے عذابِ اَلیم کا ڈر سناؤ، اور جب وہ شاہد وگواہ ہوئے اور شاہد کو مشاہدہ درکار، تو بہت مُناسِب ہوا کہ اُمّت کے تمام افعال و اقوال و اعمال و احوال اُن کے سامنے ہوں۔(اور اللہ  پاک نے آپ کو یہ مرتبہ عطا فرمایاہے جیساکہ) طبرانی کی حدیث میں  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:اِنَّ اللہ رَفَعَ لِیَ الدُّنْیَا فَاَنَا اَنْظُرُ اِلَیْھَا وَاِلٰی مَا ھُوَ کَائِنٌ فِیْھَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ کَاَنَّمَا اَنْظُرُ اِلٰی کَفِّیْ ھٰذِہٖ بے شک  اللہکریم نے میرے سامنے دنیا اٹھالی تومیں دیکھ رہا ہوں اُسے اور جو اس میں قِیامت تک ہونے والا ہے جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔(کنز العمال، جز:11،ج 6،ص189، حدیث:31968، فتاویٰ رضویہ،ج 15،ص168ملخصاً)

آیتِ قراٰنی اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:( وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-) تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔(پ 2، البقرۃ:143)(اس اٰیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)


اس آیت کی تفسیر میں حضرت سیّدُنا امام ابنِ جَرِیر طَبَری رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوسعید خُدْری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ--بِمَا عَمِلْتُمْ اَوْ فَعَلْتُمْ یعنی تم جو جو اعمال و افعال کرتے ہو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُن سب پر گواہ ہوں گے۔(تفسیر طبری، پ2، البقرۃ، تحت الآیۃ:143،ج 2،ص10، حدیث:2186)

احادیث مبارکہ: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کثیر فرامین میں ”حاضِر و ناظِر“ کا مفہوم موجود ہے مثلاً (1)حضرت سیّدُنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک  نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا تو میں   نے اس کے مشرقوں اور مغربوں (یعنی تمام جوانب و اطراف) کو دیکھ لیا۔(مسلم، ص1182، حدیث:7258) (2)حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حُضُور نبیِّ کریم، رءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے میرے سامنے دنیا پیش فرمادی، میں دنیا  اور اس میں پیش آنے والے قِیامت تک کے واقعات کو اپنی اس ہتھیلی کی طرح دیکھ رہا ہوں۔(مجمع الزوائد،ج 8،ص510، حدیث:14067)

مُحَقِّقِین بُزُرگانِ دین کے ارشادات(1)حضرت امام جلالُ الدّین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابومنصور عبدُالقاہِر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیں:قَالَ الْمُتَكَلِّمُونَ الْمُحَقِّقُونَ مِنْ اَصْحَابِنَا اَنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، وَاَنَّهٗ يَسَرُّ بِطَاعَاتِ اُمَّتِهٖ وَيَحْزَنُ بِمَعَاصِي الْعُصَاةِ مِنْهُمْ یعنی ہمارے اصحاب میں سے محقق متکلمین فرماتے ہیں: بے شک ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ وسلَّم اپنی وفات کے بعد بھی زندہ ہیں اور اپنی اُمّت کی نیکیاں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور ان کی نافرمانیاں دیکھ کر غمزدہ ہوتے

ہیں۔(الحاوی للفتاوی،ج2،ص180)

(2)شارح بخاری حضرت امام احمد بن محمد قَسْطَلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لَا فَرقَ بَينَ مَوتِهٖ وَحَيَاتِهٖ فِي مُشاهَدَتِهٖ لِاُمَّتِهٖ، وَمَعرِفَتِهٖ بِاَحْوَالِهِم وَنِيَّاتِهِم وَعَزَائِمِهِم وَخَوَاطِرِهِم، وَذٰلِكَ عِندَهٗ جَليّ لَا خَفاءَ بِهٖ یعنی اپنی اُمّت کا مشاہدہ فرمانے، ان کے حالات، دِل کے ارادوں، نیّتوں اور ان کے راز جاننے میں نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وفات اور حیات میں کوئی فرق نہیں۔ یہ تمام چیزیں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاں ظاہر ہیں ان میں سے کچھ پوشیدہ نہیں۔(مواھبِ لدنیہ،ج 3،ص410)

(3)شیخِ محقق علّامہ عبدُالحق مُحدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عُلَمائے اُمّت میں اس مسئلہ میں ایک شخص کا بھی اختلاف نہیں کہ نبیِّ پاک   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حقیقی زندگی کے ساتھ دائم و باقی ہیں، اس بات میں کسی قسم کا شبہ یا کوئی تاویل نہیں اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُمّت کے حالات پر حاضر وناظر ہیں۔ (سلوک اقرب السبل مع اخبار الاخیار، ص 155)ایک مقام پر فرماتے ہیں:شاہد کا معنی ہے اُمّت کے حال، ان کی نجات و ہلاکت اور تصدیق و تکذیب پر حاضر اور عالِم۔(مدارج النبوۃ،ج1،ص260)

(4)حضرت شاہ عبدُالعزیز مُحدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اے لوگوتم پر تمہارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت کے دن اس لئے گواہی دیں گے کہ وہ نُورِ نبوت سے ہر پرہیزگار کے مرتبہ و مقام کو جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ فلاں میرا اُمّتی کس درجہ پر پہنچا ہوا ہے اور یہ کہ اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ میرے فلاں اُمّتی کی ترقّی میں فُلاں چیز رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ پس نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہارے گناہوں، ایمان کے درجات، اچّھے بُرے اَعْمال اورتمہارے خُلوص و مُنافَقَت کو پہچانتے ہیں۔(تفسیر عزیزی، پ2، البقرۃ، تحت الآیۃ:143،ج 1،ص636)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                    صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
📚 حوالہ۔ماہنامہ فیضان مدینہ ۔دعوت اسلامی ۔محرم الحرام 1441 ھ  ستمبر 2019 ٕ

Thursday, April 16, 2020

اللہ جسے رکھے اسے کون چکھے

حکایت نمبر445:

🌻 جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے🌻

حضرت سیدنامعدی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کا بیان ہے:ابوبغیل نامی ایک شخص نے اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا: ''ایک مرتبہ طاعون کے مرض نے لاشوں کے انبار لگادیئے ،ہم مختلف قبیلوں میں جاکر مردوں کو دفن کرتے۔ جب پور ے پورے گاؤں ہلاک ہونے لگے اور لاشوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تو ہم انہیں دفنانے سے عاجز آگئے۔چنانچہ، اب ہم جس گھر میں داخل ہوتے اور دیکھتے کہ اس کے رہائشی فوت ہوگئے ہیں اور ان کی لاشیں گھر کے اندر ہی ہیں تو تمام لاشیں ایک کمرے میں جمع کرکے دروازہ اورکھڑکیاں وغیرہ بند کردیتے۔ اسی طرح گھرگھر جاکر ہم لاشیں جمع کرتے رہے پھرایک گھر میں گئے تودیکھاکہ گھرمیں موجود سب لوگ مر چکے ہیں ،ان میں کوئی ایک بھی زندہ نہ تھا۔ ہم نے گھر کے تمام دروازے بند کئے اور واپس آگئے۔
جب طاعون کا مرض چلا گیا تو ہم نے بندگھروں کو کھولنا شروع کیا، پھر ہم ایک گھرمیں گئے جس کے تمام رہائشی مرچکے تھے اور ہم نے اس کے دروازے اچھی طرح بند کئے تھے۔جب دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ صحن میں ایک تر وتازہ، فربہ اور صاف ستھرابچہ موجود تھا۔ایسالگتا تھا جیسے ماں کی گود سے ابھی ابھی لیا گیا ہو۔ہم بڑی حیرانگی کے عالم میں قدرت خداوندی عزوجل کا نظارہ کررہےتھے اور متعجب تھے کہ یہ بچہ کہاں سے آیا اور اب تک بغیر خوراک کے کیسے زندہ ہے؟ ہم حیرت کی وادیوں میں گم تھے کہ اچانک ایک مادہ درندہ دیوار کے ٹوٹے ہوئے حصے سے اندر داخل ہوا اور بچے کے قریب آکر بیٹھ گیا،بچہ محبت سے اس کی طرف لپکا اور اس مادہ کا دودھ پینے لگا۔ خالق کائنات ورزاق مخلوقات جل جلالہٗ کی اس شان رزاقی کو دیکھ کرہم بہت حیران ہوئے کہ وہ جس طرح چاہتا ہے اپنے بندوں کو رزق کے اسباب مہیا کرتاہے ۔ اس نے ایک بچے کی خوراک کاانتظام کس طرح کیا۔ طاعون کی بیماری سے اس گھر کے تمام افراد عورتیں اور مرد موت کے گھاٹ اتر چکے تھے، انہیں افراد میں ایک حاملہ عورت بھی تھی جس کا انتقال ہوگیا پھر اس بچے کی ولادت ہوئی اور اس کے رزق کا انتظام ایک درندے کے ذریعے کیا گیا۔ حضرت سیدنا معدی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کہتے ہیں: '' اس بچے نے خوب پرورش پائی اورجو ان ہو گیا او ر میں نے وہ دن بھی دیکھا کہ وہ بصرہ کی مسجد میں اپنی داڑھی کو اپنے ہاتھوں سے سنواررہا تھا ۔خالق کائنات جل مجدہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر جس طرح چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔''

📚حوالہ۔عیون الحکایات

📚فلاح دارین گروپ📚
علماۓ اہلسنت کیلۓ جواٸن ہونے کیلۓ رابطہ کریں👇
🤲 طالب دعا محمد عمران علی نعمانی رضوی قادری
📲9773617995📱

کنجوسی کا انجام

🌻حکایت نمبر18: کنجوسی کا انجام🌹

حضرت سیدنا یزید بن میسرہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:''ہم سے پہلی امتوں میں ایک شخص تھا جس نے بہت زیادہ مال ومتا ع جمع کیا ہوا تھا ،اور اس کی اولاد بھی کافی تھی ، طر ح طر ح کی نعمتیں اسے میسر تھیں، کثیر مال ہونے کے باوجود وہ انتہائی کنجوس تھا۔اللہ عزوجل کی راہ میں کچھ بھی خرچ نہ کرتا ، ہر وقت اسی کوشش میں رہتا کہ کسی طر ح میری دولت میں اضافہ ہوجائے۔جب وہ بہت زیادہ مال جمع کر چکا تو اپنے آپ سے کہنے لگا :''اب تو میں خوب عیش و عشرت کی زندگی گزار وں گا ۔چنا نچہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوب عیش وعشرت سے رہنے لگا۔
بہت سے خدام ہر وقت ہاتھ باندھے اس کے حکم کے منتظر رہتے،الغر ض! وہ ان دنیاوی آسائشوں میں ایسا مگن ہوا کہ اپنی موت کو بالکل بھول گیا۔ ایک دن ملک الموت حضرت سیدناعزرا ئیل علیہ السلام ایک فقیر کی صورت میں اس کے گھر آئے، اور دروازہ کھٹکھٹا یا۔ غلام فورا دروازے کی طر ف دوڑے، اور جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے ایک فقیر کو پایا، اس سے پوچھا:'' تویہاں کس لئے آیاہے؟''ملک الموت علیہ السلام نے جواب دیا : '' جاؤ، اپنے مالک کو باہر بھیجو مجھے اسی سے کام ہے ۔''
خادموں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا:''وہ تو تیرے ہی جیسے کسی فقیر کی مدد کرنے باہر گئے ہیں۔'' حضرت سیدنا ملک الموت علیہ السلام یہ سن کر وہاں سے چلے گئے۔ ''کچھ دیر بعد دوبارہ آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، غلام باہر آئے تو ان سے کہا:'' جاؤ، اور اپنے آقا سے کہو: میں ملک الموت علیہ السلام ہوں۔''
جب اس مالدار شخص نے یہ بات سنی تو بہت خوف زدہ ہوا اور اپنے غلاموں سے کہا:'' جاؤ، اور ان سے بہت نرمی سے گفتگو کرو۔'' خدام باہر آئے اور حضرت سیدنا ملک الموت علیہ السلام سے کہنے لگے:''آپ ہمارے آقا کے بدلے کسی اور کی رو ح قبض کرلیں اور اسے چھوڑدیں، اللہ عزوجل آپ کو بر کتیں عطا فرمائے ۔''
حضرت سیدناملک الموت علیہ السلام نے فرمایا:''ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔''پھر ملک الموت علیہ السلام اندر تشریف لے گئے،اور اس مالدار شخص سے کہا:'' تجھے جو وصیت کرنی ہے کرلے، میں تیری روح قبض کئے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔''
یہ سن کر سب گھر والے چیخ اٹھے ، اور رو نا دھونا شروع کردیا ، اس شخص نے اپنے گھر والوں اور غلاموں سے کہا:''سونے چاندی سے بھرے ہوئے صندو ق اور تابوت کھول دو، اور میری تمام دولت میرے سامنے لے آؤ۔'' فورا حکم کی تعمیل ہوئی ،او ر سارا خزانہ اس کے قدموں میں ڈھیر کردیا گیا ۔ وہ شخص سونے چاندی کے ڈھیر کے پاس آیا اور کہنے لگا: ''اے ذلیل وبد تر ین مال! تجھ پر لعنت ہو ، تو نے ہی مجھے پرور دگار عزوجل کے ذکر سے غافل رکھا ، تو نے ہی مجھے آخرت کی تیاری سے روکے رکھا ۔'' یہ سن کر وہ مال اس سے کہنے لگا:'' تو مجھے ملامت نہ کر ، کیا تو وہی نہیں کہ دنیاداروں کی نظروں میں حقیر تھا؟ میں نے تیری عزت بڑھائی۔ میری ہی وجہ سے تیری رسائی بادشاہوں کے دربار تک ہوئی ورنہ غریب ونیک لوگ تو وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے، میری ہی وجہ سے تیرا نکاح شہزادیوں اور امیر زادیوں سے ہوا۔ ورنہ غریب لوگ ان سے کہا ں شادی کر سکتے ہیں۔ اب یہ تو تیری بدبختی ہے کہ تو نے مجھے شیطانی کاموں میں خرچ کیا ۔اگر تو مجھے اللہ عزوجل کے کاموں میں خرچ کرتا تو یہ ذلت ورسوائی تیرا مقدر نہ بنتی۔کیا میں نے تجھ سے کہا تھا کہ تو مجھے نیک کاموں میں خرچ نہ کر؟ آج کے دن میں نہیں بلکہ تو زیادہ ملامت ولعنت کا مستحق ہے ۔''
اے ابن آدم !بے شک میں اورتودونوں ہی مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ پس بہت سے لوگ ایسے ہیں جونیکی کی راہ پرگامزن ہیں اور بہت سے گناہوں میں مستغرق ہیں۔( امام ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :)''گویا مال ہر شخص سے اسی طرح کہتا ہے، لہذا مال کی برائیوں سے بچ کر رہواور اسے نیک کاموں میں خرچ کرو۔''

📚عیون الحکایت۔حکایت نمبر 18

🤲طالب دعا محمد عمران علی نعمانی رضوی قادری
📲9773617995📱

Sunday, April 12, 2020

روزے میں فلمیں۔ڈرامے دیکھنا اور گانے ناجے سننا کیسا ہے?

روزے میں فلمیں، ڈرامے دیکھنا اور گانے باجے سننا کیسا؟
سوال:کیا روزے کی حالت میں فلمیں، ڈرامے دیکھنے یا گانے وغیرہ سننے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب:روزے کی حالت میں فلمیں، ڈرامے دیکھنے یا گانے وغیرہ سننے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ روزے میں اس طرح کے افعال کرنا مکروہ و سخت گناہ ہیں اور ان کی وجہ سے روزے کی نورانیت بھی جاتی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر رمضان المبارک کے روزے صرف بھوکا، پیاسا رہنے کیلئے فرض نہیں فرمائے بلکہ اس لئے فرض فرمائے ہیں تاکہ ہمیں تقویٰ و پرہیزگاری ملے۔ جیسا کہ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳) ( ترجمۂ کنز الایمان:”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔“ (پ 2، البقرۃ:183)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)یہ کیسا روزہ دار ہے جو فلمیں، ڈرامے دیکھے، گانے باجے سنے اور گناہوں کی حالت میں اپنا وقت پاس کرتے ہوئے خود ہی اپنی آخرت برباد کرے؟ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ ماہِ مبارک اپنی برکتیں لٹا رہا ہے فوراً سے پیشتر اپنے تمام گناہوں سے ہمیشہ کے لئے سچی توبہ کر کے ایسا تقویٰ حاصل کیجئے کہ پھر کبھی گناہ سرزد ہی نہ ہوں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ رمضان میں گناہوں سے بچیں اور اس کے بعد مَعَاذَ اللہعَزَّوَجَلَّ دوبارہ گناہوں میں پڑ جائیں۔ گناہ تو کسی صورت کرنے ہی نہیں، گناہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی کا باعث اور جہنم میں جانے کا سبب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہردم گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّ
📝 حوالہ۔ماہنامہ فیضان مدینہ 2017