Wednesday, September 10, 2025

آیت کریمہ نماز کے بعد دعا کے طور پر پڑھنا کیسا ہے

 السلام عليكم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


بعده عرض ہے کہ


مسئلہ: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین پڑھ کر دعا مانگنے اور مقتدیوں کے آمین کہنے پر آپ نے عدم جواز کا حکم دیا ہے، تو پھر ربنا ظلمنا انفسنا کے جائز ہونے کی وجہ کیا جبکہ وہ بھی ایک نبی حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا تھا ؟


المسفتی اکرم رضا


وعليكم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


بسم الله الرحمن الرحيم


الجواب بعونہ تعالی


ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن من الخسرين


ترجمہ: اے ہمارے رب ہم نے اپنے آپ برا کیا تو اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے


، یہاں سب جمع کے صیغے ہیں، اس آیت کے ذریعے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا اپنی لغزش کے بعد ندامت و شرمندگی کا اظہار کرکے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرکے اللہ کی رحمت و معافی کے طلب گار ہوئے ،


معلوم ہوا کہ یہ آیت کریمہ مومنوں کی مغفرت و تربیت کے واسطے ایک دعا بھی ہے اس لئے یہاں آمین کہنا جائز ہے ، جبکہ لا اله الا انت سبحانك اني كنت من الظلمین ، آیت کریمہ کے ذریعے حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ تعالی کی تسبیح بیان کیا ہے ناکہ دعا اس میں انی کنت واحد کا صیغہ ہے اور اس کے معانی پر غور کریں یعنی کوئی معبود نہیں سوا تیرے پاکی ہے تجھ کو بیشک مجھ سے بے جا ہوا یہاں دعائیہ جملہ نہیں ہے،


بلکہ آپ اس اسم اعظم کا ذکر کرکے اللہ کی تسبیح و تہلیل اور ذکر میں مشغول تھے تو اسی تسبیح کی برکت سے یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی معلوم ہوا کہ یہ آیت کریمہ مومنوں کے لئے ایک تسبیح اور وظیفہ ہے اس لئے مقتدیوں کا یہاں آمین کہنا بے معنی ہے، اسی لئے علامہ امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اس آیت کو بطور دعا پڑھنا اور مقتدیوں کو آمین یعنی اے اللہ قبول فرما، کہنا جائز نہیں ہے، اور پریشانی و مصیبت میں بطور وظیفہ پڑھنے کے بعد دعا کرے تو اللہ تعالٰی اس کی دعا قبول فرماتا ہے،


معلوم ہوا کہ اسے وظیفے کے طور پر پڑھنا چاہئے اور یہاں آمین کہنا ہے معنیٰ ہے


والله تعالى ورسولہ اعلم بالصواب


کتبہ

محمد عمران علی نعمانی رضوی