Wednesday, August 31, 2022

مسلک اعلی حضرت کیا ہے؟

مسلک اعلی حضرت کیا ہے؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل سوالات کے بارے میں۔

(1)مسلک اعلی حضرت کیا ہے ہے؟

(2)کیا سنی ہونے کے لئے مسلک اعلی حضرت کو ماننا ضروری ہے؟

(3) مسلک اعلیحضرت لگانا کیسا ہے ہے؟

(4)کیا نعرہ مسلک اعلی حضرت لگانا شدت پسندی ہے ؟

(5)کیا مسلک اعلی حضرت کا نعرہ آج سے پہلے بزرگوں نے لگایا ہے ؟

(6) اگر کوئی مسلک اعلی حضرت کو نہ مانیں تو وہ سنی رہے گا یا نہیں؟

مذکورہ تمام سوالوں کے جواب حوالے اور دلائل کے ساتھ عنایت فرمائیں ۔اور مسلک اعلی حضرت کی وضاحت میں قرآن و حدیث اقوال سلف و خلف کی مثالیں بھی عنایت فرمائیں۔

( نوٹ )حالات کے پیش نظر کثیر علماء اہلسنت کی دستخط کی ضرورت درپیش ہے۔ اس لئے برائے کرم ادارے کے علماء کے دستخط کے ساتھ جواب ارسال فرمائیں ،بہت نوازش ہوگی ۔

جواب:
عرف ناس شاہد ہے کہ اعلی حضرت کا لفظ اس زمانے میں” اہل سنت و جماعت” سے کنایہ ہوتا ہے ،جیسے حاتم کا لفظ سخاوت سے ،موسی کا لفظ حق، اور فرعون کا لفظ مبطل سے کنایہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ لفظ اہل سنت و جماعت کی شناخت اور پہچان بن چکا ہے ۔کسی بھی مقام پر کوئ شخص اگر لفظ “اعلی حضرت بول دیتا ہے تو سننے والے بلاتامل یقین کر لیتے ہیں اور ہر شخص سمجھ جاتا ہے یہ اہل سنت و جماعت سے ہے۔

اجل علمائے مکہ معظمہ حضرت مولانا سید محمد مغربی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث حرم مکہ فرماتے ہیں:جب ہندوستان سے کوئی آتا ہے تو ہم اس سے مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب کے بارے میں پوچھتے ہیں اگر وہ ان کی تعریف کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ اہل سنت سے ہے اور اگر ان کی برائی کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ بدمذہب ہے ۔یہی ہماری قسوٹی ہے پہچاننے کا۔

حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی رحمتہ اللہ علیہ قاضی القضاۃمکہ معظمہ اعلی حضرت کی شان میں فرماتے ہیں :کہ ہم اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کو ان کی تصنیفات و تالیفات سے پہچانتے ہیں ان کی محبت سنیت کی علامت ہے اور بغض رکھنا بد مذہبی کی پہچان ہے۔

الحاصل اعلی حضرت کا لفظ سنیت کی شناخت اور پہچان ہے۔ عرف عام میں اہلسنت کا مترادف ہے اس لئے مسلک اعلی حضرت کا معنی ہے مسلک اہل سنت جس کا اطلاق بلاشبہ جائز ہے۔

ممکن ہے کسی کے دل میں یہ شبہ گزرے کہ جب اس کا معنی مسلک اہل سنت ہے تو پھر لفظ اعلی حضرت کے ذکر سے کیا فائدہ ہے؟

اس کا جواب کسی ذی ہوش سےپوشیدہ نہیں آج حالت یہ ہے کہ سنی کا لفظ شیعہ کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ اس لیے سنی کا لفظ آج وہابیوں دیوبندیوں ،ندویوں وغیرہ سے امتیاز کے لیے کافی نہ رہا، یہی حال آج لفظ اہل سنت کا بھی ہے۔ وہابی اپنےکو وہابی اور دیوبندی اپنے کو دیوبندی نہیں کہتے بلکہ وہ بھی اپنے آپ کو اہل سنت ہی کہتے ہیں اور اپنے علماء کو حامی سنت اور امام اہل سنت کا خطاب دیتے ہیں ۔اس لیے یہ لفظ بھی آج اہل سنت اور اہل بدعات وہابیہ و دیابنہ غیروں کے درمیان امتیاز کے لیے کافی نہ رہا ۔

اب ہمارے جو بھائی کسی ذاتی رنجش اور باہمی چپقلش کی وجہ سے اعلی حضرت کی شان گھٹانے میں لگے ہوئے ہیں تھوڑی دیر کے لئے خالی الذہن ہوکر ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ بدمذہبوں سے امتیاز کے لیے کونسا جامع مختصر لفظ انتخاب کیا جائے، ہمیں یقین ہے کہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مسلک اعلی حضرت کے لفظ سے زیادہ موضوع کوئی لفظ نہیں ،کیونکہ سنیت کاشعار یہی لفظ ہے۔ اہل سنت کی شناخت یہی کلمہ ہے ،بدمذہبوں سے امتیاز اسی کا خاصہ ہے ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ باہمی اختلاف کے نتیجے میں کچھ کرم فرماؤں نے اسے سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کی جو بے دلیل ہونے کی وجہ سے سابقہ اتفاق میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتا۔

حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جسے مسلمان اچھا جانے وہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ مسند احمد بن حنبل ۔

صحابی رسول حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ قبر میں دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ مادینک یعنی تیرا دین کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے دینی الاسلام یعنی میرا دین اسلام ہے۔

مشکوۃ شریف صفحہ 25 بروایت ابو داود

اس حدیث میں ایک فردخاص کی طرف دین کی نسبت ہے تو اعلی حضرت کی طرف مسلک کی نسبت میں کیا قباحت ہے ،جبکہ لفظ اعلی حضرت معیار حق ہے۔

اس تمہید کو ذہن میں رکھنے کے بعد ترتیب وار ہر سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیے۔

(1) مسلک اعلی حضرت ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ کا انعام ھوا ۔قرآن شریف کی پہلی سورہ ،سورہ فاتحہ میں ہے صراط الذین انعمت علیہم” ان لوگوں کا راستہ جن پر اللہ تبارک و تعالی نے انعام فرمایا ۔

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: صراط مستقیم طریقہ اہل سنت ہے جو اہل بیت و اصحاب اور سنت و قرآن و سواد اعظم سب کو مانتے ہیں۔

یہ وہ مسلک ہے جس پر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام ر ہے۔ حدیث میں ہے صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملت ناجیہ کون ہے؟ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں ۔بعض روایتوں میں ہے یعنی جماعت اہلسنت ہے ۔

مشکوۃشریف صفحہ30

یہ مسلک سواد اعظم ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سواد اعظم کی پیروی کرو۔

مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے آخری وقت مدینہ منورہ میں یہ وصیت تحریر فرمائی تھی۔” الحمدللہ میں مسلک اہل سنت پر زندہ رہا اور مسلک حق اہلسنت وہی ہے جو اعلی حضرت کی کتابوں میں مرقوم ہیں، اور الحمداللہ آخری وقت اسی مسلک پر حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں خاتمہ بالخیر ہو رہا ہے۔

ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ شمارہ صفر 1416ھجری صفحہ 10 بحوالہ ماہنامہ ترجمان اہلسنت کراچی شمارہ ذی الحجہ 1397 ہجر ی

مسلک اعلی حضرت کا ابھی جو تعارف کرایا گیا اس کے ثبوت کے لئے کھلے ذہن سے آپ کی تصانیف مبارکہ جیسے

حسام الحرمین ،فتاوی الحرمین الدولۃ المکيہ، الکوکبۃالشہابيۃ، سبحان الصبوح، النہی الاکيد ،ازالۃ الاثار،اطائب الصیب، رسالہ في علم العقائد والکلام ،تمہيدايمان، الامن والعلا ،تجلی اليقين ،الصمصام ،رد الرفضہ ،جزاء الله يعجبه ،خالص الاعتقاء، انباء المصطفى، الزبده الزكيه،شمائم العنبر، دوام العيش، انفس الفكر،الفضل الموہبی ۔ ان ساری کتابوں کا مطالعہ کرنا کافی ہے۔

(2۔3۔4۔5۔6)
جب یہ حقیقت بخوبی واضح اور عیاں ہوگئی کہ مسلک اعلی حضرت کا معنی مسلک حق اہلسنت و جماعت ہے، تو ان امور میں جو موقف اور جوحکم اہل سنت کے نزدیک لفظ” اہل سنت و جماعت کا ہے وہی حکم مسلک اعلی حضرت کا بھی ہے۔اب ہر شخص اپنے طور پر انصاف اور دیانت کے ساتھ خود فیصلہ کرے اورعنادسے باز رہے۔

دارالافتاء میں بارہا اس طرح کے سوالات آتے ہیں اور سب ایک مخصوص علاقے سے ہی آتے ہیں، ہم اپنے بھائیوں سے گزارش کرتے ہیں وہ ذرا یہ بھی سوچیں کہ وہ کسروش پرچل رہے ہیں؟ کیا ٹھیک اسی طرح کے سوالات ایک بدبودار غیر مقلد نہیں کرتا ہے ،کہ مسلمانوں کا مذہب تو صرف ایک اسلام ہے یہ چار مذاہب کہاں سے پیدا کیے گئے ۔کیا حنفی، مالکی ،شافعی، حنبلی مذاہب اسلامف کے زمانے میں تھے وغیرہ وغیرہ ۔

ٹھیک اسی طرح کی باتیں کیا تصوف کے دشمن مشرب قادری ،چشتی ،نقشبندی ،سہروردی پھر ان کے گوناگوں شاخوںکے بارے میں نہیں کرتے ؟ذرا اور قریب آئیے کیا رضوی اور اشرفی کہنا شدت پسندی ہے؟ کیا اسلاف نےاپنے اآپ کورضوی کہا ہے ؟یہ سب عامیانہ باتیں ہیں جو جاہل عوام کو فقہا،صوفیا،علماسے برگشتہ کرنے کے لئے ان کے معاند کہا کرتے ہیں ۔تو ہمارے بھائیوں کو تو کم از کم ان کی روش پر نہ چلنا چاہیے جو لوگ عرف و عادت اور حالت زمانہ سے اآنکھیں بند رکھتے ہیں،انھیں یہی سب سوجھتا رہتا ہے ۔فقہا فرماتے ہیں : جو زمانہ کے حالات سے واقف نہیں ہے تو وہ جاہل ہے ۔

واللہ تعالی اعلم

محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی نظام الدین رضوی ۔جامعہ اشرفیہ مبارکپور

Tuesday, August 30, 2022

ماہ صفر میں شادی بیاہ اور صفر کے آخری بدھ کی حقیت ]

*صفر کا مہینہ منحوس یا مسعود۔۔۔۔۔؟؟؟*

[ ماہ صفر میں شادی بیاہ اور صفر کے آخری بدھ کی حقیت ]

    صفر المظفر سنہ ہجری کا دوسرا بابرکت مہینہ ہے۔ محقق علی الاطلاق مولوی عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، "ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے: عرب کے نزدیک "صفر" پیٹ کے اندر کے سانپ کے ہیں، جو انسان کو بھوک کی حالت میں ڈستا رہتا ہے ۔
   اس ماہ کے تعلق سے پھیلی ہوئی منحوس روایات و توہمات آج کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ اس کا تعلق زمانہ جاہلیت ہی سے ہے۔ دورجاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور صفر میں شادی بیاہ ،لین دین اور کسی بھی طرح کا مہتم بالشان کام کرنے سے گریز کرتے تھے۔ امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ مشارق الانوار میں لکھتے ہیں, “لوگ ماہ صفر کو بڑھا کر ماہ محرم کو بھی اس میں شامل کرلیتے تھے“۔

یہ تو بنی نوع آدم پر اسلام کا احسان عظیم ہے کہ بے شمار خرافات و توہمات کی بیخ کنی کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام نے اس ماہ کے تعلق سے پھیلی کئی بے سرو پا باتوں کا قلع قمع کیا اور اس منحوس سمجھے جانے والے صفر کو “مظفر“ کا حسین ترین لبادہ پہنادیا۔

کتنی افسوس کی بات ہے!  آج بھی کچھ حلقوں میں اس مہینہ کو بالخصوص اس کے آخری بدھ کو منحوس سمجھا جاتاہے۔ خطبات الناصحین نامی کتاب میں ایک لمبی من گڑھت حدیث مرقوم ہے۔ جس کا آخری حصہ ہے کہ “حضرت جبرئیل امین نے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ حضور ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اللہ تعالی نےتمام بلائیں دس حصوں میں تقسیم کی ہے ان میں سے نو حصے صرف ماہ صفر میں نازل ہوتی ہیں“ (ص، 547) اسی طرح یہ قول بھی حضرت شیخ فرید الدین عطار علیہ الرحمہ کی جانب منسوب کی جاتی ہے کہ ہر سال دو لاکھ اسی ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں اور صرف ماہ صفر میں تین لاکھ اسی ہزار بلائیں “ (ایضا) لطف کی بات یہ ہے کہ مرزا غالب کے دور میں صفر کی نحوست اتنی مشہور تھی کہ غالب نے صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ) کے استعارے میں ایک مکمل کلام ہی لکھ ڈالا ہے۔ پہلا شعر ہے، ؎

ہے چہار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کےمے مشک و بو کی ناند

    ماضی قریب میں حضور بحر العلوم علامہ مفتی عبد المنان اعظمی صاحب علیہ الرحمہ کے پاس ایک استفتا آیا، جس میں سائل نے پوچھا تھا، ”کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین، صفر کے آخری چہار شنبہ کی کیا حقیقت ہے؟ کئی جگہ لوگ بڑے اہتمام سے وضو کرتے ہیں،پرانے برتنوں کو توڑدیتے ہیں ،نئے برتنوں میں کھانا پکا کر حضور اقدس علیہ الصلٰوة والسلام کو نیاز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی دن حضور کو صحت حاصل ہوئی تھی، اور کہتے ہیں کہ صفر کے آخری بدھ کو حضور اقدس کو مرض وصال شروع ہوا تھا“. (فتاوی بحر العلوم 5، ص، 266)
اس طرح کی تمام روایات موضوع ،من گھڑت، خودساختہ اور نوپیدہ ہیں جن کو حقیقت سے دور کا بھی رشتہ نہیں۔ مولانا تطہیر احمد رضوی بریلوی صاحب فتاوی رضویہ شریف کے حوالے سے لکھتے ہیں، ”بعض جگہ کچھ لوگ اس دن (مذکورہ بالا) کو منحوس خیال کرکے برتنوں وغیرہ کو توڑتے ہیں یہ بھی فضول خرچی اور گناہ ہے۔ صفر کے مہینے کے آخری بدھ کی اسلام میں کوئی خصوصیت نہیں“۔ (غلط فہمیاں اور ان کی اصلاح )

*چند احادیث گوش گزار کریں!*
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تعدّی اور صَفَر کی کوئی حقیقت نہیں “۔ (بخاری ، 5717/مسلم، 5919) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ شگون، تکلیف، ایذا اور چھوت کسی پر اثر انداز نہیں ہوتی نیز کوئی مہینہ کبھی ساٹھ دن کا نہیں ہوتا۔ (ما ثَبَتَ بالسنّة بحواله طبرانی) اس ماہ مبارک کے تعلق سے پھیلی واہمات کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بظاہرصفر کے مہینہ میں کوئی خاص اسلامی تہوار نہیں ہے۔
لیکن اگر تھوڑا غور کیا جائے تو ماہ صفر ایک حیثیت سے دیگر کئی مہینوں سے ممتاز نظر آتا ہے۔ سال کے گیارہ مہینوں میں جتنے بزرگان دین کےاعراس ہوتے ہیں، کم و بیش اتنے ہی اعراس تنہا ماہ صفر میں آتے ہیں۔ اور صحیح حدیث میں آیا ہے ”عندَ ذكرِ الصالِحينَ تنزّل الرّحمة“ یعنی صالحین کے ذکر کی جگہ / وقت خدا کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان مردان خدا کے اعراس کے وقت ان کا ذکر خیر ہی ہوتاہے. (فی زماننا جو برائیاں بعض مشائخ کے اعراس میں رائج ہوگئی ہیں راقم ان سے بیزار ہے) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے فرماتے ہیں، ”اعراس سے ارواح اولیاء سے عشق ومحبت پیدا ہوتا ہے، اسی سے فنا فی الشیخ کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے ، اسی راز کے تحت اعراس مشائخ کی حفاظت کی جاتی ہے اور انکے مزارت کی زیارت پر مداومت اور ان کے لیے فاتحہ خوانی ہوتی ہے“ ( تحفئہ محمدیہ، ص، 24) شاہ اسماعیل دہلوی قتیل نے بھی اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھا ہے ، “پس امور مروجہ یعنی اموات کے فاتحوں، عرسوں اور نذر و نیاز کی خوبی میں شک و شبہ نہیں“. (صراط مستقیم، 76 )
آئیے اس ماہ میں ہونے والے اعراس پر سر سری نظر ڈالتے ہیں۔
پہلی تاریخ کو مارہرہ مقدسہ میں عرس قاسمی شریعت مطہرہ کے دائرہ میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے نیز عرس وارث پاک،
دوسری تاریخ کو محدث پیلی بھیتی، تین کو حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی، چار کو قطب الدین جونپوری، چھ کو شارح بخاری مفتی شریف الحق صاحب امجدی کے اعراس ہیں۔ رضوان اللہ تعالی علیھم۔
اسی طرح ۷/ کو شیخ بہاء الدین ذکریا ملتانی، 
۹/ کو ,حضرت امام موسی کاظم، ۱۱/ کو مفسر قرآن علامہ ابراہیم رضا خان بریلوی ، ۱۳ /کو حضرت امام نسأی، ۱۴/ کو حضرت مالک بن دینار، ۱۵/ کو سید الطائفہ حضرت بایزید بسطامی، ۱۶/ عاشق رسول سید احمد کبیر رفاعی / رئیس القلم حضرت علامہ ارشدالقادری ، ۱۸/کو سلطان المشائخ داتا گنج بخش ہجویری  لاہوری، ۲۲/ کو شاہ مینا لکھنوی، ۲۳/ صفر کو حضرت امام باقر، ۲۴/کو علامہ شمس الدین سیالوی، ۲۵/ کو مجدد اعظم اعلی حضرت شاہ امام احمد رضا خان بریلوی، ۲۶/کو علامہ عینی، ۲۸/کو حضرت امام حسن ابن علی (رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی شہادت) ۲۹/ کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی، اور ۳۰/ صفر المظفر کو امام حاکم نیشاپوری وصال فرمائے۔ (رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین)
جن میں سے اکثر  کے دربار میں ان کے اعراس کے وقت ارادت مندوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اور ان کے اعراس ان کے محبین کے لیے عید جیسے ہوتے ہیں۔
گویا ان بزرگان دین کی اس مہینہ میں وفات نے اس منحوس (بزعم بعضے) ماہ کو مسعود بنادیا ہے۔  ؎
بجھی شفق تو ستاروں نے ضیاء پائی
کسی کی موت کسی کی حیات بنتی ہے


از: (مفتی) *انصار احمد مصباحی،*
دار العلوم رضاے مصطفیٰ، اورنگ آباد، مہاراشٹر۔ 9860664476

Wednesday, August 24, 2022

نام رسالت پر انگوٹھے نہ چومنے والا دیوبندی نہیں

نام رسالت پر انگوٹھے نہ چومنے والا دیوبندی نہیں 

کیا تقبیل ابھام نہ کرنے سے کوئی گناہ ہے مع حوالہ وضاحت فرمائیں؟
المستفتی: مولانا محمد نوشاد عالم تلوار جراری فرخ آباد یوپی

الجواب۔اذان میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک سن کر انگوٹھے چومنا اور آنکھوں سے لگانا جائز و مستحب اور باعث خیر و برکت ہے
ردالمحتار میں ہے "ﻳﺴﺘﺤﺐ ﺃﻥ ﻳﻘﺎﻝ ﻋﻨﺪ ﺳﻤﺎﻉ اﻷﻭﻟﻰ ﻣﻦ اﻟﺸﻬﺎﺩﺓ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻚ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻭﻋﻨﺪ اﻟﺜﺎﻧﻴﺔ ﻣﻨﻬﺎ ﻗﺮﺕ ﻋﻴﻨﻲ ﺑﻚ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺛﻢ ﻳﻘﻮﻝ اﻟﻠﻬﻢ ﻣﺘﻌﻨﻲ ﺑﺎﻟﺴﻤﻊ ﻭاﻟﺒﺼﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﺿﻊ ﻇﻔﺮﻱ اﻹﺑﻬﺎﻣﻴﻦ ﻋﻠﻰ اﻟﻌﻴﻨﻴﻦ ﻓﺈﻧﻪ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﻳﻜﻮﻥ ﻗﺎﺋﺪا ﻟﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﺠﻨﺔ ﻛﺬا ﻓﻲ ﻛﻨﺰ اﻟﻌﺒﺎد اﻩ۔ ﻗﻬﺴﺘﺎﻧﻲ ﻭﻧﺤﻮﻩ ﻓﻲ اﻟﻔﺘﺎﻭﻯ اﻟﺼﻮﻓﻴﺔ ﻭﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﻣﻦ ﻗﺒﻞ ﻇﻔﺮﻱ ﺇﺑﻬﺎﻣﻪ ﻋﻨﺪ ﺳﻤﺎﻉ ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻓﻲ اﻷﺫاﻥ ﺃﻧﺎ ﻗﺎﺋﺪﻩ ﻭﻣﺪﺧﻠﻪ ﻓﻲ ﺻﻔﻮﻑ اﻟﺠﻨﺔ ﻭﺗﻤﺎﻣﻪ ﻓﻲ ﺣﻮاﺷﻲ اﻟﺒﺤﺮ ﻟﻠﺮﻣﻠﻲ ﻋﻦ اﻟﻤﻘﺎﺻﺪ اﻟﺤﺴﻨﺔ ﻟﻠﺴﺨﺎﻭﻱ"(ج١،ص٣٦٧)۔
بہار شریعت میں ہے" جب مؤذن اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہے تو سُننے والا درود شریف پڑھے اور مستحب ہے کہ انگوٹھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگا لے اور کہے قُرَّۃُ عَیْنِیْ بِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ" (ح٣،ص٤٧٤)۔
لہذا اگر کوئی شخص نام پاک سن کر انگوٹھے نہیں چومتا مگر جائز و مستحب سمجھتا ہے اور چومنے والوں پر ملامت روا نہیں جانتا نیز چومنے والوں پر ملامت کرنے والوں کو برا جانتا ہے تو کوئی حرج نہیں اور اگر اسلئے نہیں چومتا کہ ناجائز سمجھتا ہے تو شبہ وہابیت و دیوبندیت ہے کہ وہی اسے ناجائز و بدعت گردانتے۔
فتاوی رضویہ میں ہے" جبکہ مستحب جانتا ہے اور فاعلون پر اصلا ملامت روا نہیں جانتا فاعلون پر ملامت کرنے والوں کو بُرا جاننا ہے تو خود اگر احیانا کرے احیانا نہ کرے ہرگز قابلِ ملامت نہیں فان المستحب ھذا شانہ"(ج٥، ص٤١٥)۔
بہار شریعت میں ہے "مُستَحب وہ کہ نظرِ شرع میں پسند ہو مگر ترک پر کچھ ناپسندی نہ ہو خواہ خود حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے کِرام نے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر مطلقاً کچھ نہیں" (ح٢، ص٢٨٣)۔
اسی طرح اذان و تکبیر کے علاوہ نام پاک مصطفی علیہ الصلاۃ والتسلیم سن کر انگوٹھا چومنا جائز و مستحن ہے کہ اس میں بھی حضور علیہ السلام کی تعظیم ہے اور حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جیسے بھی کی جاے باعث ثواب ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے"جائز بلکہ مستحب ہے جبکہ کوئی ممانعت شرعی نہ ہو مثلاً حالت خطبہ میں یا جس وقت قرآن مجید سُن رہاہے یا نماز پڑھ رہا ہے ایسی حالتوں میں اجازت نہیں باقی سب اوقات میں جائز بلکہ مستحب ہے جبکہ بہ نیتِ محبت وتعظیم ہو اور تفصیل ہمارے رسالہ منیر العین میں ہے" (ج٥،ص٤١٦)۔

واللہ تعالی اعلم
شان محمد المصباحی القادری
١٦ربیع الأول ١٤٤٣

Wednesday, August 17, 2022

فوت شدہ بیوی کا چہرہ دیکھنا ، جنازے کو کندھا دینا اور قبر میں اتارنا کیسا؟*

🛑🛑 *فوت شدہ بیوی کا چہرہ دیکھنا ، جنازے کو کندھا دینا اور قبر میں اتارنا کیسا؟*

👈سوال :  *بیوی کے انتقال کے بعد شوہر اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے یا نہیں ؟نیز کیا اس کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے  اور قبر میں بھی اتار سکتا ہے ؟*

👏سائل: *محمد اسید نوری* ممبی

*اَلْجَوَابُ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ*

    ✍عورت کے انتقال کے بعداس کےشوہر کا عورت کے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانا منع ہے۔بقیہ  اس کے چہرے کودیکھنا یا اس کے جنازہ کو کندھا دینا اور قبر میں اُتارنا  یہ سب جائز ہے ، اس میں شریعت ِ  مطہرہ کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں ۔

 ✍   اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: اگر عورت مر جائے تو شوہر اس کے جنازے کو ہاتھ لگائے یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں: ” جنازے کو محض اجنبی ہاتھ لگاتے، کندھوں پر اُٹھاتے، قبر تک لے جاتے ہیں، شوہر نے کیا قصور کیا ہے۔یہ مسئلہ جاہلوں میں محض غلط مشہور ہے۔ہاں شوہر کو اپنی زنِ مردہ کا بدن چھونا ، جائز نہیں، دیکھنے کی اجازت ہے۔کمانص علیہ فی التنویر والدر و غیرھما ۔اجنبی کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں۔محارم کو پیٹ، پیٹھ اور ناف سے زانوتک کے سوا چھونے کی بھی اجازت ہے۔“

    اسی سے متصل ایک اور سوال ہوا : زوجہ کا جنازہ شوہر کو چھونا کیسا ہے؟ چھونا چاہئے یا نہیں؟ شوہر کا اپنی زوجہ کا منہ قبر میں رکھنے کے بعددیکھنا کیسا ہے ،چاہئے یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں:” شوہر کو بعدِ انتقالِ زوجہ قبر میں خواہ بیرونِ قبر اس کا منہ یا بدن دیکھنا جائز ہے، قبر میں اتارنا ، جائز ہے اور جنازہ تو محض اجنبی تک اٹھاتے ہیں، ہاں بغیر حائل کے اس کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کو ناجائز ہوتا ہے۔

    زوجہ کو جب تک عدت میں رہے شوہر مردہ کا بدن چھونا بلکہ اسے غسل دینا بھی جائز رہتا ہے۔یہ مسئلہ درمختار وغیرہ میں ہے۔“

📚(فتاویٰ رضویہ جلد9،صفحہ138 )📚

   ✍ صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں: ”عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازہ کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اتار سکتا ہے نہ مونھ دیکھ سکتا ہے، یہ محض غلط ہے صرف نہلانے اور اسکے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔“

 📚(بہارِ شریعت ، جلد1،صفحہ 813)📚

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَ

Friday, August 5, 2022

معززعلمائے اہل سنت سےمودبانہ گزارش

سیاح ایشیاوافریقہ مفکر اسلام علامہ قمرالزماں خاں اعظمی اطال ﷲ عمرہ کا درد دل روح فرسا حالات کے تناظر میں ضرور پڑھیں

معززعلمائے اہل سنت سےمودبانہ گزارش

از:خاکسار محمد قمرالزماں خاں اعظمی مصباحی ،سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن ،لندن

الحمد للہ،اللہ رب العزت نے آقاے کریم رئوف ورحیم ﷺ کے صدقے وطفیل اپنے جن بندوں کی علم کی دولت عطافرمائی ،یقیناوہ بہت خوش نصیب ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے علم اورعلما کی فضیلت جا بجا بیان فرمائی ہے ۔ایک مقام پر فرمایا’’اَلْعُلَمَآءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآءِ‘‘۔(رواہ الجامع الصغير، عن أنس بن مالک) یعنی علماانبیائے کرام کے وارث ہیں ۔

ایک مقام پر علمائے کرام کی شان بیان کرتے ہوئے حضور تاج مدینہ ارواحنا فداہ ﷺ نے علماکے چہروں کو دیکھنا عبادت قرار دیا ہے ۔سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اَلْعِلْمُ حَیَاۃُ الْاِسْلَامِ ،(کنزالعمال)یعنی علم اسلام کی زندگی ہے ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالم کون ہے؟تو قرآن رہنمائی فرماتا ہے :اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُ ا ؕ۔

ترجمہ : اللّٰہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔(کنزالایمان)

اب ہم اس آیت کی روشنی میں اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں کہ ہماری زندگی میں خوف وخشیتِ خدا ہے یا نہیں ؟اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں اپنے احتساب اور اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔

اگرہم اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لبہائے مبارک سے نکلنے والے الفاط بابِ اجابت تک پہنچتے تھے اور ان کی ہر دعا بارگاہ الٰہی میں قبول ہوجاتی تھی ۔ان کے پاس پریشان حال اپنی پریشانی لے کر جاتا تو اس کی پریشانی دور ہوجاتی تھی ۔وہ اگر کسی کے لیے دعافرمادیتے تو اس کی بگڑی بن جاتی ۔وہ کچھ کہہ دیتے تو مولیٰ ان کی زبان کی لاج رکھ لیتاتھا۔وجہ کیا تھی؟
قرآن فرماتا ہے : وَ مَنْ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہٗ مَخْرَجًا ۔(الطلاق : آیت ۲)

ترجمہ : اور جو اللّٰہ سے ڈرے، اللّٰہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا ۔(کنزالایمان)

اور ارشاد فرمایا: وَ مَنْ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا ۔(الطلاق : آیت۴)

ترجمہ :اور جو اللّٰہ سے ڈرے اللّٰہ اس کے کام میں آسانی فرمادے گا ۔(کنزالایمان)

ہماری محفلوں میں بیٹھنے والے ہر شخص میں خوف وخشیتِ الٰہی کے جلوے نظر آنے چاہیے لیکن نظر نہیں آتے ۔افسوس! ہم عیش پسند اور غافل بنتے جارہے ہیں ۔ہماری عوام راہ حق سے بھٹک کراِرتداد کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے،اس پر ہماری توجہ نہیں ہوتی۔ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے اُن کا ہمیں ادراک ہوناچاہیے۔آج جس طرح اُمت مسلمہ میں انحراف وارتداد پیداہورہا ہے اگر ہم نے ان مسائل کا وقت پر ادراک نہیں کیا تو ڈر ہے کہ یہ سیلاب کہیں اُمتِ مسلمہ کو بہا نہ لے جائے۔

پہلے کے مقابل اب علماے کرام کی ذمے داریاں بڑھ چکی ہیں ۔ہمیں غفلت کی نیند سے بیدار ہوکر اُمتِ مسلمہ کے ایک ایک فرد کو سمجھانے اور راہ حق پر گامزن کرنے کی ضرورت ہے ۔انھیں علم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوگا۔اپنی عوام کے مفاد میں کام کرناہوگا۔اپنی عوام کو اللہ رب العزت ،اللہ کے رسول ﷺ اور اللہ کے ولیوں سے قریب کرنا ہوگا۔

اگر ہم ان آبادیوں اور بستیوں کا جائزہ لیں جہاں علمانہیں ہیں ،تو پتہ چلے گا کہ وہاں کے حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔اور بہت سے وہ علاقے جہاں علما موجود ہیں وہاں بھی بیشتر عوام کو صحیح طور پر کلمہ یاد نہیں اور نہ ہی اس کے تقاضوں سے کچھ واقف ہیں ۔وہ آقائے کریم کی سیرت سے ناواقف ہیں ۔انھیں قرآن پڑھنا نہیں آتا۔اس میں جہاں ہماری عوام کا قصور ہے وہیں کہیں نہ کہیں ہم بھی اس سلسلے میں جواب دہ ہوں گے ۔

علماے کرام کی ذمے داری یہ ہے کہ آخرت کی منزل اپنے سامنے رکھیں اوراللہ کی عطاکردہ دولت علم اور میراث نبی کوتقسیم کرنے میں خوب محنت کریں۔

اگر ہم نے عیش وعشرت کی زندگی اپنائی اور مقصد سے غافل رہے،تو عنداللہ وعندالرسول ہم جواب دہ ہوں گے۔اور ہم اپنے رسول کو منھ دکھانے کے بھی قابل نہ رہیں گے۔

ہم نے علم کیوں حاصل کیا ؟اگر حصول علم کا مقصد فروغ علم ،فروغ دین ومذہب اور خدمت خلق نہیں ہے تو پھر اور کیا مقصد ہے ؟جہاں تک روزی روٹی کا مسئلہ ہے توہمیں اس کی کچھ زیادہ فکر کی ضرورت نہیں ہے۔اللہ کریم کا وعدہ ’یٰآیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوْٓا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللہَ یَنۡصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ ‘‘برحق ہے۔اگر ہم اس کے دین کی خدمت اخلاص وللہیت کے ساتھ کرتے رہیں گے تو وہ ہمیں محروم نہیں کرے گا بلکہ ہماری مدد فرمائے گا۔حدیث پاک کے مطابق علماکے کے لیے سمند ر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں اور یہ بھی روایتوں میں ملتا ہے کہ اللہ پاک کسی عالم کو فاقہ کے سبب موت نہیں دے گا۔

اگر ہم اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے تو اہل دنیا اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے ۔ہمیں دنیا کے لیے دین کا کام نہیں کرنا ہے بلکہ اخلاص کے ساتھ اس لیے دین کا کام کرنا ہے کہ ہم بروزقیامت اللہ ورسول کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں ۔

اب چند اور باتیں بطور لائحہ عمل آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔اگر مناسب سمجھیں تو عملی جامہ پہنائیں ۔

(۱)جگہ جگہ مکاتب کھولنے کی فکر کریں جن میں تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنے پڑھانے کا نظم کریں ۔

(۲)آپ دین کی بنیادی باتیں مثلا وضو،غسل،نماز وغیرہ سکھانے میں بھی عار نہ کریں ۔

(۳) تضییع اوقات سے بچیں ۔واٹس اپ،فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کااستعمال بقدرے ضرورت کریں۔

(۴) اپنی ساری امیدیں اللہ رب العزت سے وابستہ رکھیں ،عوام سے اپنی امیدیں بالکل وابستہ نہ رکھیں ۔

(۵)اپناظاہر وباطن درست کرنے کی کوشش کریں ۔انسان ظاہر دیکھتا ہے ،اللہ باطن کو دیکھتاہے۔

(۶) اپنے اُن اسلاف کی زندگی کا مطالعہ کریں جن کی زندگی ہمارے لیے حجت ودلیل ہے۔

(۷)ہرعالم دین، کتاب وسنت سے اپنا رشتہ مستحکم کرے اورنماز میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

(۸)حضور سید العلماء علیہ الرحمہ کے ارشاد کے مطابق علما روزآنہ دوسوصفحات کا مطالعہ کریں ۔

(۹)علماآپس میں بیٹھیں تو علمی مذاکرات کریں ۔

(۱۰)عوام میں بیٹھیں تو ان کو دینی باتیں سکھائیں ۔

(۱۱) بچوں اور بچیوں کی عصری و دینی تعلیم کے انگلش میڈیم اسکولس قائم کریں۔

(۱۲)  اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی لائبریریاں قائم کریں ۔

(۱۳) علماے کرام خطاب برائے خطاب نہیں بلکہ خطاب برائے تعمیر وتبلیغ کا مزاج پیدا کریں ۔

(١٤) جہاں بھی خطاب کے لیے مدعو ہوں وہاں کی عوام کی دینی حالت کا جزئزہ لیں ،اور کچھ دیر قیام فرما کر انھیں مشوروں سے نوازیں یا ایسی جماعت تشکیل دیں جو آپ کے چلے آنے کے بعد بھی دینی کاموں میں مصروف رہے اور پھر اس جماعت کی نگرانی کریں ۔ اور جماعت کے افرادکے اندر اخلاص پیداکریں۔

(۱٥)انھیں حالات کی خطر ناکیوں کا احساس دلائیں اور ان کے اندر احساسِ زیاں پیداکریں ۔عوام تو عوام ہیں ہم جیسے علماکہلانے والوں کے اندر بھی مستقبل کے خطرات اور حا ل کے چیلنجوں کا ادارک نہیں ہے ۔

آج پوری دنیا میں اسلام ایک مظلوم ترین صداقت ہے اور دنیا بھر کی تمام قوتیں قوانینِ اسلام کو مٹانے کے درپے ہیں اور ایک منظم منصوبے کے تحت اسلام کے شعائر کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

مسلم نوجوانوں کو اسلام سے دور کرنے اور کفروارتداد کی طرف مائل کرنے کے لیے غیر مسلم قوتیں اپنے تمام مادی وسائل اختیار کررہی ہیں ۔اسلامی عقائد واعمال ،اسلامی اخلاق،اسلامی اقدارسے نفرت پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش ہورہی ہے ۔

باب عقائد میں عقیدہ توحید ورسالت سے منحرف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور شرکیہ اعمال کی طرف رغبت دلائی جارہی ہے ۔اُمت مسلمہ کو تہذیبوں کے تصادم کا چیلنج بھی درپیش ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جن ملکوں میں مدارس کو ختم کردیا گیا وہاں اسلام مٹ گیا۔ امام بخاری اور بہت سے ائمہ حدیث وفقہ کی سرزمینوں میں صحیح سے کلمہ پڑھنے والے نایاب ہیں ۔وسط ایشیا کی وہ تمام ریاستیں جو اِشتراکیت کی زد میں آئیں، وہاں مدارس کو مٹا کر اسلام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔کچھ اور ملکوں میں اسی طرح کی کوشش ہورہی ہے،اس صورت میں علماے کرام کو تمام مساجد کو جزوقتی درسگاہوں میں تبدیل کرناہوگا۔

مساجد کے تمام ائمہ اپنے گردو پیش کا جائزہ لیں اور کوشش کریں کہ متعلقہ آبادی یا محلے کا کوئی بچہ دینی تعلیم سے محروم نہ رہنے پائےاور سن بلوغ سے پہونچنے سے قبل اس قدر آگاہ ہوجائے کہ وہ در پیش چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔علماوائمہ مساجد کے لیے تدریس وتبلیغ دین اب فرض کفایہ نہیں بلکہ فرض عین ہے ۔

پیشکش۔محمدعمران علی نعمانی رضوی۔ماگورجان۔اتردیناجپور بنگال
📲9773617995📱