Friday, November 15, 2024

محرم میں قربانی کا گوشت کھانے کو گناہ کہنا اٹکل سے بغیر تحقیق کے غلط مسئلہ بتانا ہے جو بلاشبہ ناجائز و گناہ ہے اس لئے کہنے والے پر توبہ واجب ہے

*بسم الله الرحمن الرحيم*
*الصــلوة والسلام عليك يا رسول الله ﷺ*
ا•───────────────────────────────────•

           *`غـلـط فـہـمـیـوں کـی اصـلاح`*

*الســوالـــــــــــــــ*
 
*کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے گھر میں قربانی کا گوشت پڑا ہوا ہے ۔ چند دن پہلے میرا ایک عزیز گھر میں آیا اس نے بتایا کہ قربانی کا گوشت محرم سے پہلے پہلے ختم ہو جانا چاہئے محرم میں قربانی کا گو شت کھانا گناہ ہے ۔ میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا واقعی محرم میں قربانی کا گوشت کھانا گناہ ہے ؟*

*ا•‍━━━━•••◆◉💠◉◆•••‍━━━━•*

*الجــوابـــــــــــــــ*      

مستحب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے اور افضل یہ ہے کہ سارے گوشت کے تین حصّے کئے جائیں ایک حصّہ فُقَرا کو اور ایک حصّہ دوست واحباب کو دے اور ایک حصّہ اپنے گھر والوں کیلئے رکھ لے ۔ اگر سارا گوشت اپنے گھر میں رکھا اور استعمال کر لیا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں اور جب تک چاہیں رکھ سکتے ہیں استعمال کر سکتے ہیں محرم سے پہلے پہلے ختم کرنا شرعاً ضروری نہیں، 
ابتدائے اســلام میں تین دن سے زیادہ رکھنے کی ممانعت تھی جو بعد میں منسـوخ ہوگئی ۔ 
لہـــــذا قربانی کرنے والا یا جسے وہ دے جب تک چاہیں استعمال کرسکتے ہیں ۔
*یــاد رہے* کہ محرم میں قربانی کا گوشت کھانے کو گناہ کہنا اٹکل سے بغیر تحقیق کے غلط مسئلہ بتانا ہے جو بلاشبہ ناجائز و گناہ ہے اس لئے کہنے والے پر توبہ واجب ہے ۔

*(📙 مختصر فتاوی اہلسنت ، ص٢١٨)*

ا•───────────────────────────────────•
✍🏻 ۔۔۔۔ فیضـان القادری
 پیشکش : فیضانِ حضرتِ مخدوم جہاں (گروپ)

85

Monday, November 4, 2024

بوقت فاتحہ غوث پاک یا خواجہ غریب نواز وغیرہ کے نام سے گھی یا تیل کے گیارہ چراغ روشن کرنے شرعی حکم کیا ہے اور مزارات مقدسہ پر چراغ جلانا کیسا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام مندرجہ ذیل مسائل کے متعلق 
 بوقت فاتحہ غوث پاک یا خواجہ غریب نواز وغیرہ کے نام سے گھی یا تیل کے گیارہ چراغ روشن کرنے شرعی حکم کیا ہے 
اور مزارات مقدسہ پر چراغ جلانا کیسا ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ہدایۃ الحق و الصواب 

بوقت فاتحہ غوث پاک یا خواجہ غریب نواز یا دیگر بزرگان دین رحمھم اللہ المبین کے نام سے آج کل جو گھروں میں چراغ روشن کئے جاتے ہیں اس کی اجازت نہیں ہے 
کیونکہ وہ بے مقصد صحیح، بے محل و حاجت کے روشن کیے جاتے ہیں اور اس عمل میں برکت کا تصور بھی کیا جاتا ہے جو محض باطل و بے اصل، من گھڑٹ ہے اور یہ وضع جہالت اور مال کا ضیاع ہے 
البتہ اگر چراغ کی روشنی میں کچھ پڑھنا ہو شرعی تقاضے کے مطابق ہو تو چراغ روشن کئے جا سکتے ہیں 

اور بزرگان دین رحمھم اللہ المبین کے مزارات مقدسہ پہ آج کل جو چراغ روشن کئے جاتے ہیں اس سے بھی اجتناب لازم ہے 
 بطور تعظیم صرف ایک آدھ چراغ روشن کرسکتے ہیں 
کیونکہ چراغ روشنی کے لیے جلایا جاتا ہے اور وہاں چراغ کی روشنی سے کہیں زیادہ روشنی (لائٹ، بلب) وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے
لہذا اب چراغ روشن کرنا اسراف ہوگا 
البتہ اگر وہاں روشنی کا اہتمام نہ ہو زائرین کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہو یا تلاوت قرآن پاک، ذکر و اذکار کرنا دشوار ہو رہا ہو، شرعی حاجت و ضرورت ہو 
تو ایسی صورت میں چراغ جلانا، روشنی کرنا جائز و درست بلکہ مستحسن و بہتر ہے 

اسراف کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے 
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا
ترجمہ کنز الایمان : بیشک اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے 
اس سے پہلی آیت میں  اللّٰہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ فضول خرچی نہ کرو جبکہ اس آیت میں  فرمایا کہ بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں  کے بھائی ہیں  کیونکہ یہ ان کے راستے پر چلتے ہیں  اور چونکہ شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے، لہٰذا اُس کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔( پارہ ١٥،سورہ بنی اسرائیل، آیت ٢٧)

سول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
" وَكَرِہَ لَكُمْ قِيْلَ وَقَالَ ، وَكَثْرَةَ السُّؤالِ ، وَإضَاعَةَ الْمَالِ "
ترجمہ: اللہ تعالی نے تمہارے لئے تین چیزوں کو ناپسند فرمایا ہے ، قیل و قال ، بےضرورت سوالات کی کثرت اور مال کا ضیاع ،
(الصحیح للبخاری ، کتاب الادب ، باب عقوق الوالدين من الكبائر ، رقم الحدیث: ۵۹۷۵ ، ص۱۵۰۱ ، دار ابن کثیر ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۳ھ)*

سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” مگر فاتحہ کے وقت گھی کا چراغ جلانافضول ہے، اور بعض اوقات داخلِ اسراف ہوگا، اس سے احترازچاہیے ۔ “
(فتاوٰی رضویہ ، ج9 ، ص616 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

دوسرے مقام پہ فرماتے ہیں :”اور قریبِ قبر سلگانا کہ اگر وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوں کہ نہ تالی یا ذاکر بلکہ صرف قبر کے لیے جلا کر چلا آئے، تو ظاہر منع ہے کہ اسراف و اضاعت مال ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ482 ، رضافاؤنڈیشن لاہور) 

روح البیان فی تفسیر القرآن میں ہے
ایقاد القنادیل و الشمع عند قبور أولیاء و الصلحاء من باب التعظیم و الا جلال ایضاً للاولیاء فألمقصد فیھا مقصد حسن و نذر الزيت و الشمع للالياء يوقد عند قبورهم لهم و محبة فيهم جائز ايضا لا ينبغي النهى عنه 
یعنی أولیاء وصلحاء کی قبور مبارک پر چراغ جلانا جائز ہے کہ یہ ان کی تعظیم ہے، اور یہ اچھا مقصد ہے 
 (روح البیان فی تفسیر القرآن ج 3 ص 420 سورہ توبہ ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

فتاویٰ رضویہ میں ہے : “اگر شمعیں روشن کرنے میں فائدہ ہو کہ موضع قبور میں مسجد ہے یا قبور سر راہ ہیں یا وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے یا مزار کسی ولی اللہ یا محققین علماء میں سے کسی عالم کا ہے وہاں شمعیں روشن کریں ان کی روح مبارک کی تعظیم کےلئے جو اپنے بدن کی خاک پر ایسی تجلی ڈال رہی ہے جیسے آفتاب زمین پر، تاکہ اس روشنی کرنے سے لوگ جانیں کہ یہ ولی کا مزار پاک ہے تاکہ اس سے تبرک حاصل کریں اور وہاں اللہ عز و جل سے دعا مانگیں کہ ان کی دعا قبول ہو تو یہ امر جائز ہے اس سے اصلاً ممانعت نہیں ، اور اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد 4 ص 145)

فتاوٰی ادارہ شرعیہ میں ہے 
یعنی قبروں پر چراغ لے جانا بدعت اور مال کا ضائع کرنا ہے۔ اسی طرح بزازیہ میں ہے اور یہ سب اسی صورت میں ہے جب کہ یہ فعل بے فائدہ ہو۔ لیکن اگر کسی قبر کی جگہ مسجد ہو یا قبر راستہ پر ہو یا وہاں کوئی بیٹھا ہو یا کسی ولی یا محقق عالم کی قبر ہو تو ان کی روح کی تعظیم کرنے اور لوگوں کو بتانے کے لئے کہ یہ ولی کی قبر ہے تاکہ لوگ اس سے برکت حاصل کریں اور وہاں اللہ سے دعا کریں تو چراغ جلانا جائز ہے۔‘‘ (فتاوٰی ادارہ شرعیہ دوم ،صفحہ ٤١١)
و اللہ اعلم عزوجل و ورسولہ اعلم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم 

کتبہ  عادل رضا قادری حنفی
١٠ربیع الآخر ١٤٤٦ ہجری- 14 اکتوبر 2024 عیسوی