السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال یہ ہے کہ ایک دیہات گاؤں میں جمعہ ہوتا ہے اور جمعہ نماز کے دو فرض کے بعد ظہر کی چار رکعت فرض نماز نہیں ادا کی جاتی ہے جماعت کے ساتھ۔
تو پھر مقتدیوں کے لئے کیا ضروری ہے کہ وہ ظہر کی چار رکعت فرض نماز پڑھیں یا پھر جمعہ کی چار رکعت سنت مؤکدہ ادا کریں تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
السائل> احمد حسین رضوی گھوسی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ گاؤں میں جمعہ کی نماز درست نہیں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں حضور فقیہ ملت تحریر فرماتے ہیں کہ؛ گاؤں میں جمعہ کی نماز درست نہیں لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انہیں منع نہ کیا جائے کہ وہ جس طرح بھی اللہ ورسول کا نام لیں غنیمت ہے
ایسا ہی فتاوی رضویہ جلد سوم صفحہ نمبر {714}
میں ہے گاؤں میں اگر جمعہ کے نام پر نماز پڑھی گئی تو اس سے ظہر کی نماز ساقط نہیں ہوگی لہٰذا گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز پڑھنا فرض ہے اور جماعت کے ساتھ پڑھنا واجب ہے اس کے لئے تکبیر بھی کہی جائے گی۔حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز اذان و اقامت کے ساتھ پڑھیں
(بہار شریعت حصہ چہارم صفحہ نمبر 102)
گاؤں میں بنام جمعہ دورکعت پڑھنے کے لئے چاہے فرض کی نیت کریں یا نفل کی بہرحال وہ نماز نفل ہی ہوگی چار رکعت سنت ظہر اور فرض نماز ظہر باجماعت کے درمیان دورکعت بنام جمعہ کے سبب وقفہ سے کوئی خرابی نہیں گاؤں میں اگرچہ جمعہ نہیں ہے صرف ظہر فرض ہے لیکن جس گاؤں میں جمعہ قائم ہے اسے بند نہ کیا جائے گا کہ عام طور پر لوگ جو پنج وقتہ نماز نہیں پڑھتے وہ جمعہ کے نام سے آٹھ دن پر مسجد میں حاضر ہوجاتے ہیں اور اللّٰہ ورسول کا نام لے لیتے ہیں
{فتاوی فقیہ ملت جلد اول صفحہ نمبر 241}
الحاصل کلام یہی ھے کہ گاؤں میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، خلاصہ کلام یہ ھے کہ دو رکعت جمعہ کے بعد چار فرض، دو سنت، دو نفل ادا کریں اور واجب ھے کہ امام صاحب دو رکعت جمعہ کے بعد ظہر کی چار رکعت جماعت سے پڑھائیں
واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ
کتبہ؛ محمد الطاف حسین قادری
خادم التدریس دارالعلوم غوث الورٰی ڈانگا لکھیم پور کھیری یوپی الھند
منجانب؛ محفل غلامان مصطفیٰﷺ گروپ