Sunday, September 4, 2022

ساتذہ (ٹیچر ڈے) منانا کیسا ہے

‎یوم اساتذہ (ٹیچر ڈے) منانا کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: یوم اساتذہ منانا کیسا ہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی ۔

المستفتی: محمد انتخاب عالم سراجی اتر دیناج پور بنگال۔



وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب حامداومصلیاومسلما:

 یوم اساتذہ منانا جائز ہے۔

فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی قدس سرہ العزیز ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: یوم اساتذہ منانا جائز ہے خواہ وہ کسی بھی تاریخ میں ہو کہ اس میں اساتذہ کی تعظیم اور ان کے شکر و احسان کی بجا آوری ہے اور اپنے استاد کی تعظیم جس طرح بھی کی جائے درست اور جائز ہے 

اعلی حضرت  امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ  ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں کہ: استاد علم دین کا مرتبہ ماں باپ سے زیادہ ہے وہ مربی بدن ہیں یہ مربی روح جو نسبت روح کو بدن سے ہے وہی نسبت استاد سے ماں باپ کو ہے "کما نص علیہ العلامتہ الشر نبلالی فی غنیتہ ذوی الاحکام و قل فیہ ذا ابو الروح لا ابو النطف" 

(فتاویٰ رضویہ  جلد نہم،نصف آخر صفحہ  ١٤١)

لیکن نابالغ بچے اپنا روپیہ چندہ میں نہیں دے سکتے البتہ گھر والے جو چندہ دے اسے پہنچا سکتے ہیں 

جیسا کہ درالمختار مع شامی جلد ٥، ص ٦٨٧ پر ہے کہ: "لا تصح ھبتہ الصغیرۃ اھ" 

(بحوالہ فتاوی فقیہ ملت، ج ٢،ص ٢٨٠/٢٨١،شبیربرادرز)



تنبیہ: بالغ بچیاں تحفہ وتحاٸف وغیرہ اساتذہ کو پیش نہ کریں کیونکہ دورحاضر میں فتنہ میں پڑنے کا بسیار اندیشہ ہے۔

اور مزید یہ کہ یوم اساتذہ منانے میں اس بات کا بھی خاص خیال رکھے کہ  شریعت مطہرہ کے خلاف کوٸی فعل صادر نہ ہو ورنہ فعل قبیح پرگناہ وعتاب وعذاب  ہوگا.

واللہ تعالی اعلم بالصواب۔



کتبہ: ابو کوثر محمد ارمان علی قادری جامعی

 ،سیتامڑھی۔۔

٢٦/محرم الحرام ١٤٤٣ھ۔

٥/ستمبر٢٠٢١ ٕ  ۔

بروز اتوار۔

Thursday, September 1, 2022

فون پر طلاق دینے سے طلاق پڑ جاتی ہے/ثبوت طلاق کی صورتیں/طلاق دیکر انکار کرنے کا حکم

فون پر طلاق دینے سے طلاق پڑ جاتی ہے/ثبوت طلاق کی صورتیں/طلاق دیکر انکار کرنے کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے ہندہ کو فون پر تین طلاق دیا اسکی خبر زید کے باپ کو بھی ہے اس کے بعد ہندہ اپنے میکے چلی آئی  اس کے بعد زید اپنی بیوی ہندہ کو لینے کیلئے آیا تو زید کی ساس نے پوچھا کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم طلاق دے دئے ہو تو اس نے اس بات کا اقرار کیا کہ یہ بات صحیح ہے جس وقت اقرار کیا تھا اس وقت ایک مرد اور ایک عورت موجود تھی لیکن اب زید اور اس کا باپ صاف انکار کر رہا ہے ایسی صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں حکم شرع بیان فرمائیں کرم ہوگا۔ 

الجواب۔ زید کے والد کے علم سے طلاق ثابت نہیں ہو سکتی اسی طرح ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی سے بھی کیونکہ ثبوت طلاق کیلئے شوہر کا اقرار یا دو مرد یا ایک مرد اور دو عادل ثقہ عورتوں کی گواہی ضروری ہے۔
قال الله تعالی فی کتابه الکریم: وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ۔ لہذا اگر شوہر اقرار کر لے تو شرعا طلاق واقع ہو جائے گی کہ اس کا اقرار کرنا ہی طلاق ہے لیکن شوہر اقرار نہ کرے اور عورت دعوی پیش کرے تو شوہر کو سمجھایا جائے کہ واقعی اگر طلاق دی ہے تو پھر بہت گناہ ہوگا اور زندگی بھر زنا کا ارتکاب ہوگا اگر پھر بھی نہ مانے تو کسی ولی الله کے مزار پر لے جاکر اس طرح قسم کھلوائیں کہ بخدا میں نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی اگر میں اپنے قول میں جھوٹا ہوں تو کوڑھی اندھا ہو جاؤں اسی طرح تین بار قسم لیں اگر قسم کھانے سے انکار کر دے تو ظاہر ہے کہ جھوٹ بول رہا ہے 
لہذا کسی طرح اس سے طلاق کا اقرار کرا لیں اگر اقرار کر لے تو طلاق واقع ہوجائے گی اور اگر قسم کھا لے تو شوہر کے قول کو معتبر مانا جائے گا اور طلاق واقع نہ ہوگی کہ طلاق شوہر کے اقرار یا دو مرد یا ایک مرد اور دو عادل ثقہ عورتوں کی گواہی سے ثابت ہو سکتی ہے اور یہاں تینوں صورتیں مفقود ہیں اور جھوٹی قسم کھانے کاوبال اسی کے سر ہوگا صحیح مسلم میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "و ان الکذب فجور وان الفجور یھدی الی النار"(ج٤، ص٢٠١٣،ش)-

والله تعالی اعلم
شان محمد المصباحی القادری
١١ جولائی ٢٠١٩