*🔹قبل نکاح پیدا ہونے والا بچہ ثابت النسب ہوگا یا نہیں🔹*
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
مفتیان کرام سے عرض ہے کہ مرد و عورت نے نکاح سے پہلے قربت کرلی ۔
اب اسی سے حمل بھی ٹھر گیا اب نکاح بھی اسی عورت سے ہوا وہ بچہ حلالی ہو گا یا حرامی ؟ توبہ بھی کر چکے ۔
حمل ضائع کروا دیں تو گناہ ہوگا یا نہیں۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
*فخر ازھر چینل لنک*
https://t.me/fakhreazhar
*🔹سائل لقمان پاکستان🔹*
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب* اگر کوئی مرد نے کسی عورت سے زنا کر لے پھر وہ حاملہ ہو جائے اور اس کے بعد اس عورت سے نکاح کر لے تو اگر نکاح سے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو تو اس بچہ کا نسب قضاءً ناکح سے ثابت ہوجائے گا اور دیانةً ثابت نہیں ہوگا ۔ اور اگر نکاح کی تاریخ سے چھ مہینہ سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے ۔ اور خاوند یہ اقرار کرے کہ یہ بچہ میرا ہے تو ثبوت نسب کے لئے یہ اقرار تو معتبر نہیں ہوگا ۔ لیکن اس اقرار کی وجہ سے بچہ اس کی میراث میں وارث بنے گا
📑جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے کہ *" إذا زنا بامرأة ثم تزوجها فولدت منه إن جاءت به لستة عشر فصاعدا يثبت نسبه إلا ان يدعيه ولم يقل إنه من الزنا إلا ان قال أنه من الزنا فلا يثبت نسبه ولا يرث منه " اھ*
*(📕 فتاوی عالمگیری ج 1 ص 540 : كتاب الطلاق ، الباب الخامس عشر )*
📄 اور اسی میں ہے کہ *" اذا تزوج الرجل امرأة فجائت بالولد لأقل من ستة أشهر منذ تزوجها لم يثبت نسبه و ان جاءت لستة أشهر فصاعداً يثبت نسبه منه اعترف به الزوج أو سكت " اھ*
*(📘 فتاوی عالمگیری ج 1 ص 536 )*
📜 اور اسی میں ہے کہ *" إذا زنى رجل بامرأة فجاءت بولد فالدعاه الزاني لم يثبت نسبه منه و اما لمراة فيثبت نسبه منها " اھ*
*(📗 فتاوی عالمگیری ج 4 ص 127 : كتاب الدعوى / تبيين الحقائق ج 3 ص 275 : كتاب الطلاق ، باب ثبوت النسب )*
📃 اور بہار شریعت میں ہے کہ " کسی عورت سے زنا کیا پھر اُس سے نکاح کیا اور چھ مہینے یا زائد میں بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت ہے اور کم میں ہوا تو نہیں اگرچہ شوہر کہے کہ یہ زنا سے میر ا بیٹا ہے " اھ
*(📚 بہار شریعت ج 2 ص 251 : ثبوت نسب کا بیان )*
📌چار ماہ کے بعد اسقاط حمل حرام ہے اس سے قبل ضرورۃ کر سکتے ہیں
📄جیسا کہ در مختار مع رد المحتار میں ہے کہ *" و قالوا : يباح اسقاط الولد قبل أربعة أشهر " اھ*
📃 رد المحتار میں ہے کہ *" ( و قالوا الخ ) هل يباح الاسقاط بعد الحبل ؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شئى ولن يکون ذلک الا بعد مائة وعشرين يوما هذا يقتضى انهم ارادوا بالتخليق نفخ الروح " اھ*
یعنی کیا حمل ٹھرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے ؟ ہاں جب تک اس کی تخلیق نہ ہو جائے جائز ہے ۔ پھر تخلیق کا عمل 120 دن یعنی چار ماہ کے بعد ہوتا ہے اور تخلیق سے مراد روح پھونکنا ہے " اھ
*( 📚در مختار مع رد المحتار ج 4 ص 336 : کتاب النکاح ، باب نکاح الرقیق ، دار الکتب العلمیہ بیروت )*
*🌹واللہ اعلم بالصواب🌹*
اـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ
*✍🏻کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــہ*
*حضرت مولانا کریم اللہ رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی*
*🗓 ۱۷ مارچ ٠٢٠٢ء مطابق ۲۱ رجب المرجب ۱۴۴۱ھ بروز منگل*
*رابطہ* https://wa.me/+917666456313
اــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح حضرت مفتی شکیل اختر صاحب قبلہ کرناٹک*
ماشاءاللہ بہت عمدہ جواب
*✅الجوابـــــ صحیح فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب وامام جامع مسجد مہاسمند(چھتیس گڑھ)*
اــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
*🔸فیضان غوث وخواجہ گروپ میں ایڈ کے لئے🔸* https://wa.me/+917800878771
اــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
*المشتـــہر؛*
*منجانب منتظمین فیضان غوث وخواجہ*
*گروپ محمد ایوب خان یارعلوی بہرائچ*
اــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ